تحریروترتیب۔ احمد کمال نظامی ۔۔۔ بیوروچیف نوائے وقت فیصل آباد........
منہاج ویلفیئر فا¶نڈیشن فیصل آباد کے زیراہتمام گذشتہ روز 25جوڑوں کی شادیوں کی انتہائی پروقار اجتماعی تقریب منعقد ہوئی جس میں ویلفیئر فا¶نڈیشن کی طرف سے ہر دلہن کو لگ بھگ سوا لاکھ روپے کا جہیز دیا گیا۔اس سامان میں عرفان القرآن کے ایک ایک نسخہ کے علاوہ جائے نماز، ڈبل بیڈ ہمراہ بیڈ گدا، ڈبل بیڈ رضائی، تکئے، پیٹی، سوٹ کیس، سٹیل کے برتن، ڈنر سیٹ، پلاسٹک برتن سیٹ، کھیس، دریاں، ٹی سیٹ، بیڈ سیڈ، دو عدد کرسیاں، میز، استری، واشنگ مشین، سلائی مشین، بیڈسیٹ فین، الماری، دولہا کے دو عدد سوٹ، دلہن کے چار عدد سوٹ، دولہا کے لئے گھڑی اور دیگر اشیاءشامل تھیں۔منہاج ویلفیئر فا¶نڈیشن فی الحقیقت تحریک منہاج القرآن کا فلاحی ادارہ ہے جو مخیر حضرات سے فلاحی کاموں کے لئے رقوم جمع کر کے اور بعض صنعت کاروں سے جہیز میں شامل کی جانے والی ان کی مصنوعات کا عطیہ وصول کر کے ہر سال چھوٹے متوسط اور غریب طبقے کی لڑکیوں کو پیا گھر بھیجنے کا اہتمام کرتا ہے۔جہیز دلہن کو اپنے والدین کے گھر سے ملنے والا وہ تحفہ ہوتا ہے جو اسے شادی کے موقع پر اس خیال سے دیا جاتا ہے کہ وہ نئے گھر کی بنیاد رکھنے جا رہی ہوتی ہے۔جہیزکے لغوی معنی ”تیاری“ کے ہیں گویا لڑکی کو نئے گھر روانہ کرتے وقت نئے گھر کی ابتدائی اور بنیادی ضرورتوں کے لئے تیار کیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں غربت اورافلاس کے باعث بہت سی لڑکیاں محض اس لئے والدین کے گھروں میں جوانی کے بہت سے ماہ و سال مستقبل کے سہانے سپنوں میں گم رہ کر گزار دیتی ہیں۔ بہت سے لوگ ان لڑکیوں کا رشتہ دیکھنے آتے ہیں لیکن والدین کے مالی حالات اور جہیز نہ ملنے یا کم ملنے کا اندازہ لگا کر ان لڑکیوں کے رشتے قبول نہیں کرتے۔ دراصل زیادہ تر والدین کی کوشش ہوتی ہے کہ انہوں نے اپنے بیٹے کو تعلیم دلوا کر یا ہنر سکھا کر روزگار کمانے کے قابل بنایا ہے یا اس کا چھوٹا موٹا کاروبار شروع کر کے دیا ہے تو اس کی دلہن اس کے ساتھ زندگی شروع کرنے کے لئے اپنے ساتھ جہیز لے کر آئے۔ لڑکی والدین کے لئے رحمت ہوتی ہے لیکن ہمارے ملک اور معاشرے میں لڑکی کو جوان ہونے پرا پنی چوکھٹ سے روانہ کرتے وقت بارات کو جو پرتکلف کھانا دینا پڑتا ہے اور جہیز کے لئے لڑکی کے سسرال والوں کے تقاضوں کو جس طرح پورا کرنا پڑتا ہے اس سے اکثر والدین کے لئے لڑکی کا وجود رحمت کی بجائے زحمت کا باعث بن جاتا ہے۔ زمانہ جاہلیت میں اگر بڑے گھروں میں لڑکی پیدا ہوتی تھی تو اسے پیدا ہوتے ہی اس لئے زندہ دفن کر دیا جاتا تھا کہ یہ لڑکی کسی پرائے مرد کو دے کر اس کے سامنے گردن جھکا کر بات کرنا پڑے گی۔ اسلام نے عورت کو بہت زیادہ حقوق عطا کئے ہیں۔ وہ ماں ہے تو اس کے پا¶ں میں اولاد کی جنت ہے۔ وہ بہن ہے تو بھائیوں کے لئے سراپا ایثار بن جاتی ہے۔ جب تک والدین کے گھر رہتی ہے بھائیوں کا ہر حکم ان کی ہر خواہش پورا کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ ا گر بہن بڑی ہو تو وہ ماں کی طرح صدقے واری جاتی ہے اور یہ بہن کا وجود ہے جو لڑکوں میں رشتوں کے تقدس کو جگاتا ہے۔ ماں اور بہن کے بعد مرد کے ساتھ عورت کا تیسرا رشتہ اس کا وہ روپ ہے جس میں وہ کسی نہ کسی مرد کی دلہن بنتی ہے۔ بیوی کی حیثیت سے وہ اس کے ساتھ نئے سفر کا آغاز کرتی ہے۔ اس امنگوں بھرے سفر کا آغاز کرنے کے لئے جن لڑکیوں کے والدین کے پاس دھن دولت نہیں ہوتی ان کی لڑکیاں اکثر والدین کی چوکھٹ پر اپنے بالوں میں چاندی کی آمیزش تک پہنچ جاتی ہیں۔ جن لڑکیوں کے بالوں میں چاندی جھانکنے لگے ان کے لئے رشتے آنا بند ہو جاتے ہیں۔ عورت کا چوتھا مقدس روپ بیٹی کا ہے۔ اسی روپ کو رسول پاک نے رحمت کا روپ قرار دیا ہے جو والدین ایک بیٹی کو جنم دے کر اسے خوش سیرت بنا کر گھر گرہستی کی تربیت دے کر اس کی شادی کر دیتے ہیں ان کے لئے جنت میں داخل کئے جانے کی بشارت ہے۔ جو والدین دو لڑکیوں کے فرض کو پورا کرتے ہیں ان پر اللہ کی رحمت دوگنا ہو جاتی ہے اور جن والدین کو دو سے بھی زیادہ بیٹیوں کو پیا گھر بھیجنے تک کے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے اللہ ان کے لئے اپنی رحمت کے دروازے اس دنیا کے ساتھ ساتھ اگلی دنیا میں بھی کھول دیتا ہے۔ فی زمانہ لڑکی کی شادی کے لئے جہیز ایک ایسی ضرورت بن چکا ہے کہ اگر کوئی لڑکی اس کے بغیر اپنے دولہا کے گھر چلی جائے تو میکے میں اس کو بہت سی باتیں سننا پڑتی ہیں لہٰذا جو این جی اوز اور جو دینی ادارے شادی بیاہ کی اجتماعی تقریبات کے انعقاد میں لڑکیوں کے لئے جہیز فراہم کرتے ہیں اور ان کی باراتوں کو ظہرانہ یا عشائیہ دینے کا اہتمام کرتے ہیں وہ لائق تحسین ہیں۔ ایسے اداروں اور ایسی تنظیموں کے ساتھ دامے، درمے سخنے ہر طرح سے تعاون کرنا ہر صاحب ثروت شخص کا فرض ہے۔فیصل آباد میں اجتماعی شادیوں کی تقریب کے دوران 25جوڑوں کو شادی کے بندھن میں باندھ دیا گیا۔
فرسودہ رسم و رواج اورغربت میں جکڑے معاشرے میں بیٹی کے ہاتھ پیلے کرنا غریب کے لیے ناممکن ہوتا جارہاہے ان حالات میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی سرپرستی میں چلنے والی منہاج ویلفیئر فاو¿نڈیشن کے زیر اہتمام 25جوڑوں کی اجتماعی شادیوں کی پروقارتقریب منہاج القرآن اسلامک سنٹرگلفشاں کالونی کے سامنے وسیع گراو¿نڈ میں منعقد ہوئی اس تقریب کی صدارت تحریک منہاج القرآن پنجاب کے امیر احمد نواز انجم نے کی باراتوں کی آمد کا سلسلہ دوپہر1بجے تک جاری رہا ڈھول اورفوجی بینڈ سے ان کا استقبال کیاگیا پنڈال کو رنگ برنگی جھنڈیوں سے سجایا گیا تھا جبکہ سٹیج سید ہدایت رسول قادری ،ہمایوں عباس شمس،ملک ظفر اقبال،حضور محمد صابر،علامہ عزیز الحسن حسنی ،میاں کاشف محمود،چوہدری محمود عالم جٹ ، علامہ اختر حسین اسد ، غلا محمد قادری ، رانا طاہر سلیم خاں، حاجی محمد عارف بیگ ،شیخ اعجاز احمد،اللہ رکھا نعیم القادری، حاجی محمد سلیم قادری ،حاجی محمدرفیق ، حاجی عبدالمجید ، حاجی امین القادری ، حاجی محمدرشید قادری، حاجی محمد اشرف ، قاری محمد امجد ظفر، رانا رب نواز انجم کے علاوہ دیگر ممتاز سیاسی،مذہبی ، سوشل ویلفیئر اور سماجی بہبود کے نمائندوں نے شرکت کی اس تقریب سعید سے امیر تحریک منہاج القرآن پنجاب احمد نواز انجم نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی مذہبی ،تعلیمی اور فلاحی خدمات قابلِ تقلید ہیںبانی تحریک منہاج القرآن امن و سلامتی کے حقیقی سفیر ہیں انہوں نے نفرتوں کو محبتوں سے بدلنے کا جو مشن شروع کیا ہے وہ پوری دنیا میں انہیں ممتاز کرتا ہے ، تقریب سے ، سید ہدایت رسول قادری ،انجینئر محمد رفیق نجم ، علامہ عارف صدیقی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہر فرد دوسروں کو خوشیاں بانٹنے کا عظیم کام ضرور کرے کیونکہ غربت ،جہالت اور پسماندگی کا خاتمہ کرنا سُنتِ رسول ہے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے بے سہارہ اور یتیم بچوں کے منصوبے آغوش سمیت دیگر فلاحی اور تعلیمی منصوبوں کو دوسروں کے لئے مثال بنا دیا ہے انہوںنے کہا کہ بدقسمتی سے ملکی حالات ایسے ہو گئے ہیں کہ عوام خوشیوں کو ترس گئے ہیںمنہاج القرآن کا یہ طرہ امتیاز ہے کہ اس نے معاشرے میں باہمی اخوت اورمحبت کے جذبے کو اجاگر کیا اورآج ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی زیر قیادت دنیابھر میں منہاج ویلفیئر فاو¿نڈیشن دکھی انسانیت کی خدمت کر رہی ہے جبکہ نکاح کے فرائض قاری سرفراز احمد قادری ، قاری محمد اعظم نے سرانجام دیئے منہاج ویلفیئر فاو¿نڈیشن کی طرف سے تقریب میں شریک ہر دلہن کو ایک لاکھ روپے سے زائد مالیت کاسامان جن میں قرآن پاک ، جائے نماز، برتنوں والی الماری ، ڈبل بیڈ، کرسیاں ، میز ، پیٹی ، ڈرمی آٹے والی، اٹیچی کیس، سلائی مشین ، واشنگ مشین ، پنکھا، استری، کلاک، سٹیل برتن، ڈنر سیٹ، پلاسٹک برتن، رضائی ڈبل بیڈ، تکیے، کھیس، دریاں ، واٹر سیٹ ، ٹی کپ، میک اپ سامان ودیگر ضروریات زندگی کا تمام سامان اور دلہن کو سونے کا کوکا ، دلہا کوگھڑی کا تحفہ دیاگیا تقریب میں 2000مہمانوں کو پرتکلف کھانا دیاگیا ہے اس پر وقار تقریب کا اختتام قرآن پاک کے سائے میں 25دلہنوں کی رخصتی پر ہوا اس موقع پر خوشی کی اس تقریب میں لوگوں کی آنکھیں پرنم ہوگئیں ۔ یتیم اوربے سہارا دلہنوں اوران کے لواحقین نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی درازی عمر اور صحت کے لیے دعائیںدیں ۔
منہاج فا¶نڈیشن 25دلہنوں کو سوا سوا لاکھ کا جہیز دے کر ان کے دلہوں کے ساتھ رخصت کر دیا۔ یہ ایک انتہائی قابل رشک کارنامہ ہے۔ ہمارے ہاں شادی بیاہ کی تقریبات میں اکثر بہت زیادہ اسراف کیا جاتا ہے۔ مایوں، مہندی، بارات کا استقبال، دلہن کی رخصتی، ولیمہ، ہر تقریب پر بہت زیادہ اخراجات نے بیٹیو ںکے علاوہ بیٹوں کی شادیاں بھی مسئلہ بنا دی ہیں۔ہمارے ہاں اکثر دھوم دھڑکے کے ساتھ ہونے والی شادی بیاہ کی تقریبات میں ہوائی فائرنگ بھی ہوتی ہے اور اکثر اس قسم کی تقریبات میں کسی نہ کسی معصوم زندگی کا ضیاع تک بھی ہو جاتا ہے۔ شادی بیاہ کی تقریبات میں سادگی کو شعار بنانے سے بہت سے معاشرتی مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ متمول طبقے کے اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکوں میں اب یہ رجحان بھی پیدا ہو رہا ہے کہ وہ اپنے اور اپنی ہونے والی دلہن کے والدین کو دوٹوک انداز میں کہہ دیتے ہیں کہ وہ دلہن کے ساتھ مسجد میں نکاح کریں گے اور اسے دو جوڑوں میں بیاہ کر لائیں گے۔اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اب ہمارے نوجوانوں میں جہیز لینے سے انکار اور اجتناب کا رجحان بھی ابھر رہا ہے اور اگر متمول طبقے کے لوگوں نے شادی بیاہ کی رسموں میں سادگی کو اختیار کر لیا تو پھر چھوٹے متوسط طبقے اور غریب طبقے کے والدین کے لئے بھی اپنی بیٹیوں کوخود اپنی کمائی سے ہاتھ پیلے کرنے کی استطاعت پیدا ہو سکتی ہے۔شادی بیاہ کے کلچر میں سادگی اس ملک اور معاشرے کے لئے ایک صحت مند رجحان بن کر سامنے آئے گی لیکن اس کے باوجود اگر کچھ مخیر اور صاحب ثروت لوگ، این جی اوز اور دینی و سماجی ادارے اور تنظیمیں ضرورت مند والدین کی جہیز کی کمی کی وجہ سے گھروں میں بیٹھی بیٹیوں کی ڈولیاں اٹھانے میں ان کی مدد کرتے ہیں اور شادی بیاہ کی اجتماعی تقریبات منعقد کی جاتی ہیں تو یہ بلاشبہ ایک رشک آفرین سلسلہ ہے۔ پنجاب کے سابق گورنر لیفٹیننٹ جنرل خالد مقبول (ان کا تعلق بھی فیصل آباد سے تھا) شادیوں کی اجتماعی تقریبات کے ابتدائی محسنوں اور بانیوں میں شامل تھے اور انہیں بہت سے جوڑے اب بھی یقینا اچھے الفاظ میں یاد کرتے ہوں گے۔