پاکستان کی سیاسی تاریخ بیگم نصرت بھٹو جیسے لافانی کردار کی ہمیشہ رہینِ احسان رہے گی جنہوں نے غیر جمہوری اور جابرانہ ادوار کے دوران آزمائے گئے ہتھکنڈوں کا مقابلہ بے مثال جرا¿ت اور استقامت سے کیا۔پاکستان میں جمہوریت کی بحالی اور عوام کے حقوق کی بازیابی کی اس جدو جہد کے دوران انہوں نے بے پناہ مصائب و الم کا سامنا کیا مگر اس کے باوجود کوئی بھی مشکل انہیں اپنے عظیم شوہر شہید ذوالفقار علی بھٹو کے نظریہ اور مشن کی تکمیل کے ساتھ کئے جانے والے عہد سے ہٹا نہ سکی۔یہ ایک تاریخٰی حقیقت ہے کہ پاکستان کی خاتون اﺅل ہونے کے ناطے وہ ملک کے غریب اور نادار عوام کی خدمت کے لئے ہمیشہ پیش پیش رہیں- یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ شہید ذوالفقار علی بھٹو کی جمہوری حکومت کے دوران اختیار کی گئی لاتعداد غریب دوست پالیسیوں کے پیچھے قوت محرکہ بیگم صاحبہ کی ذات تھی-وہ نہ صرف پالیسی سازی کی سطح پر ملک کے محروم اور پسے ہوئے طبقات کی خدمت کےلئے عملی اقدامات میں بھی پیش پیش ہوتیں بلکہ عوام کے مسائل کے حل کے لئے ان کا شانہ بشانہ ساتھ دیتیں ۔
اس سے قبل پاکستان پیپلز پارٹی جو درحقیقت ملک کے بے نوا عوام کو آواز دینے کا ایک پلیٹ فارم تھا کی تشکیل کے وقت انہوں نے شہید قائد عوام کی کاوشوں کو بھر پور تقویت دی ۔انہوں نے نہ صرف پاکستان پیپلز پارٹی شعبہ خواتین کے قیام میں اہم کردار ادا کیا بلکہ عوام ا ور پارٹی قیادت کے درمیان ایک پل کا کردار بھی ادا کیا۔وہ اپنی خداداد صلاحتیوں اور پاکستانی عوام کے خدمت کے جذبے کی وجہ سے پاکستان پیپلز پارٹی کے کارکنوں کے دِلوں میں ایک انتہائی اعلیٰ مقام حاصل کر چکیں تھیں-کارکنوں کے مسائل سننے اور ان کے حل کےلئے ہمہ وقت مصروف رہنے کی وجہ سے وہ شہید بھٹو کے بعد پاکستان پیپلزپارٹی کی سب سے مقبول رہنما کے طور پر ابھر کر سامنے آئیں۔اگر میں اپنے سیاسی سفر پر ایک نظر دوڑاﺅں تویہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ ایک نوجوان سیاسی کارکن کے طور پر میرے لئے بیگم نصرت بھٹو کی کرشماتی شخصیت بے حد متاثر کُن تھی- نہ صرف میں بلکہ پارٹی کے دوسرے کارکن اور عوام اُن کی جمہوریت، آزادی رائے اور خواتین کی بااختیاری کے حوالے سے کی جانے والی کاوشوں سے بے انتہا متاثر تھے- 1974 کی اسلامی سربراہ کانفرنس کے کامیاب انعقاد میں ان کا کردار ان کی انتظامی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ایک فوجی آمر کی جانب سے قائد عوام کی جمہوری حکومت کا تختہ اُلٹے جانے کے بعد محترمہ نصرت بھٹو نے ہر طرح کے مصائب اور تکالیف کا مقابلہ افسانوی جرات اور بہادری سے کیا-ایک جانب وہ اپنے عظیم خاوند کی زندگی بچانے کی جدوجہد کر رہی تھیں تو دوسری طرف انہیں مارشل لاءکی وحشت کا مقابلہ کرنا پڑ رہا تھا-یہ وہ ستمگر عہد تھا جب ایک فوجی حکمران شہید ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کو صفحہ ہستی سے مٹانے پر تلا بیٹھا تھا، مگر محترمہ نصرت بھٹو اس کے ارادوں کی راہ میں آہنی چٹان بن گئیں- بےگم نصرت بھٹو نے ان نازک حالات میں ملک کی دوسری جمہوری پسند قوتوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر کے بحالی جمہوریت کی غیر معمولی جدوجہد شروع کی- تحریک بحالی جمہوریت (ایم آر ڈی) کے قیام اور اسے چلانے میں ان کا کردار کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا- مارشل لاءحکومت کی جانب سے اختیار کئے گئے ظلم و ستم کی قبل ازیں کوئی مثال نہیں ملتی- غالب حکمران محترمہ نصرت بھٹو کی ذات کو اپنے لئے بڑا خطرہ تعبیر کرتے تھے جس پر ان کی بے مثال جمہوری جدوجہد کو روکنے کی خاطر انہیں پابند سلاسل کر دیا گیا-
اس بات پر آج بھی کوئی دو رائے نہیں کہ غاصب حکمران پاکستان پیپلز پارٹی کو تباہ کرنے میں شاید کامیاب ہو جاتے اگر محترمہ نصرت بھٹو جمہوریت کا علم سربلند نہ رکھتیں-اس جمہوری جدوجہد کے دوران انہیں بہیمانہ تشدد کا سامنا بھی کرنا پڑا جبکہ80 ءکی دہائی کے اوائل سے ہی اُن کی طبیعت خراب رہنا شروع ہو گئی لیکن اس کے باوجود ان کے ارادے غیر متزلزل رہے اور انہوں نے بیرون ملک سے شہید محترمہ بینظیر بھٹو کو مکمل رہنمائی اور مدد فراہم کی-انہوں نے اپنی سیاسی بصیرت کا بھر پور مظاہرہ 1985 ءمیں جنرل ضیاءالحق کی جانب سے انتخابات کے ڈرامہ کا بائیکاٹ کرتے ہوئے کیا اور ملک کی دوسری اہم سیاسی قوتوں کو بھی اس پر آمادہ کیا جس کے نتیجے میں انتخابات کے ڈھونگ کی کوئی ساکھ باقی نہ رہی-
مجھے ذاتی طور پر بیگم صاحبہ کے وژن اور فکر سے ادراک کا اعزاز حاصل ہوا-ان کے شخصیت کے گوناگوں پہلوﺅں میں میںاسے ایک نمایاں امر یہ تھا کہ بیگم صاحبہ خواتین کی بااختیاری اور غریب عوام کی سماجی و معاشی بہتری کو ملکی ترقی کیلئے بنیادی عنصر سمجھتی تھیں-وہ خواتین کو مضبوطی ، پختگی اور رواداری کا امین سمجھتی تھیں کیونکہ ان کی اپنی زندگی بھی اسی جدوجہد سے عبارت تھی اور میں یہ کہنے میں کوئی عار نہیں سمجھتی کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی ایک مستحق خاتون دراصل بیگم نصرت بھٹوکی زندگی سے متاثر کُن ایک کردار ہی ہے- محترمہ شہید بینظیر بھٹو نے درحقیقت بیگم صاحبہ کے خواتین کی بااختیاری اور ملک بھر سے غربت کے خاتمے کے مشن کو انتہائی جانفشانی سے آگے بڑھایا- انشاءاﷲ صدر پاکستان آصف علی زرداری کی رہنمائی کے مطابق ملک کو ایک فلاحی ریاست بنانے کا مشن پایہ تکمیل تک پہنچایاجائے گا-گو محترمہ نصرت بھٹو آج جسمانی طور پر ہم میں نہیں رہیں تاہم وہ پاکستانی عوام کے لئے ہمیشہ ایک قابل تقلید مثال رہیں گی- بھٹوز کے فلسفہ پر چلنے والوں کیلئے وہ ایک لافانی کردار ہیں-غریب عوام کی زندگی میں مثبت معاشی و سماجی تبدیلیاں لانے کے حوالے سے اُن کی انتہائی اعلیٰ اور غریب پرور سوچ ہمارے لئے ہمیشہ مشعل راہ رہے گی-