منگل ‘ 6 ذی الحج 1433ھ 23 اکتوبر2012 ئ

عمران خان کہتے ہیں‘ زرداری کے پاس موقع ہے‘ شریف برادران کو کیفرکردار تک پہنچائیں۔
غیرآزمودہ کوالیفکیشن کے حامل عمران خان نے ایک جھلک تو اپنے رخ زیبا کی دکھا دی کہ موقع پرست سیاست کی اہلیت ظاہر کر دی‘ ابھی تو دلہن ڈولی میں ہے‘ ابھی تو منہ دکھائی کی رسم بھی ادا نہیں ہوئی اور خان صاحب نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی جزئیات سامنے آئے بغیر پنجاب زرداری کے ہاتھ بیچ ڈالا۔ وہ نہیں جانتے کہ اس پھبتی کا کیا انجام ہو گا۔ ملکہ سیاست کس کے ہاتھ آتی ہے اور بالخصوص پنجاب میں کون گھوڑی چڑھتا ہے‘ یہ تو انہوں نے سوچا بھی نہیں....
اس زلف پہ پھبتی شبِ دیجور کی سوجھی
اندھے کو اندھیرے میں بہت دور کی سوجھی
منظور وٹو‘ لٹو کا رول پلے کرتے کرتے پیپلز پارٹی پر لٹو ہو گئے اور سڑکیں عوامی پیپلز پارٹی کے عوام کے پیسے سے لگے بینروں سے بھر گئیں۔ یہ کپڑا بے لباسوں کا لباس ہے اور ایک طرح سے عوام کی طرف سے وہی طریقہ احتجاج ہے جس کا ذکر غالب نے ان الفاظ میں کیا....ع ”کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا“ زرداری سے لگتا ہے سونامی خان کو یاری کی سوجھی ہے کیونکہ وہ جتنا ”پیار“ شریف نواز سے کرتے ہیں‘ اتنا زرداری سے نہیں کرتے۔
زمین چمن گل کھلاتی ہے کیا کیا
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
٭....٭....٭....٭
امیر جماعت اسلامی آزاد کشمیر عبدالرشید ترابی سمیت کئی کشمیری رہنماﺅں نے وزیراعلیٰ پنجاب کے بیان پر کہا ہے‘ وزیراعلیٰ نے کشمیریوں کے زخموں پر نمک چھڑک دیا۔ وزیراعلیٰ نے پرسوں فرمایا تھا‘ کشمیر طاقت سے حاصل نہیں کیا جا سکتا۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وزیراعلیٰ پنجاب نہ صرف حصول کشمیر کاایجنڈا رکھتے ہیں‘ بلکہ وہ خود بھی کشمیری ہیں‘ لیکن بیان غیرکشمیری ہے اور کشمیریوں کے زخموں پر نمک پاشی ثابت ہوا۔ کشمیر کا مسئلہ حل کرانے کیلئے ہم 65 برس سے بات چیت چلا رہے ہیں اور ہر پرامن طریقہ استعمال کر رہے ہیں لیکن بھارتی نیتاﺅں نے پنڈت جی کے اقرار کے بعد انکار کو بدستور قائم رکھا ہوا ہے اور الٹی گنگا بہادی کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے‘ حالانکہ یہ ہمارا سلوگن ہونا چاہیے کیونکہ کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور تقسیم کے وقت بھی تھی۔ چلو خیر ہم اب اسے اپنی شہ رگ کہتے ہیں کہ قائد نے ہمیں یہی نعرہ بلکہ پروگرام دیا اور انہوں نے کشمیر کو طاقت کے ذریعے حاصل کرنے کی کوشش بھی کی مگر زندگی نے مہلت نہ دی اور پھر انکے چراغوں میں روشنی یا بندوقوں میں گولیاں نہ رہیں۔65 سالہ اخلاقی ہمسایہ پروری کے باوجود آج بھی بھارت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر تو کجا‘ آزاد کشمیر پر بات چیت کی دعوت مل رہی ہے۔ کیا وزیراعلیٰ پنجاب منہ میٹھا کرینگے‘ ان مذاکرات سے؟ اب اگر ہم مسلم لیگ نون کے کیمپ سے بھی یہ صدا سن لیں تو پھر ہمیں ”اکیلے نہ جانا ہمیں چھوڑ کر تم“ جیسا گیت وزیراعلیٰ پنجاب کو کشمیریوں کی طرف سے سنا کر یہ کہنے کا بھی حق ہے کہ....
جب توقع ہی اٹھ گئی غالب
کیوں کسی کا گلہ کرے کوئی
٭....٭....٭....٭
فنکشنل لیگ نے اپنے اجلاس میں طے کیا ہے‘ عید کے بعد لیگی دھڑوں کے اتحاد پر غور کیا جائیگا۔
پیر پگاڑا کی گویا عید میں عید حائل ہو گئی‘ کیونکہ انکی اپنے والد محترم کی طرح خواہش ہے کہ لیگی دھڑے ایک ہو جائیں اور انکے دل کی کلی کھل جائے مگر کیا کیجئے کہ پیر صاحب کے دل کی کلی بھی اس کلی پر گئی ہے جس کا ذکر میر نے کیا....
کھلنا کم کم کلی نے سیکھا ہے
تیری آنکھوں کی نیم خوابی سے
مسلم لیگ اگر آج ایک ہوتی تو نہ کہیں سے یہ آواز اٹھتی کہ زرداری صاحب موقع ہے فائدہ اٹھالیں اور نہ ہی کوئی یہ کہتا کہ ضمانتیں ضبط کرا دینگے۔ مسلم لیگ ایک بڑی سیاسی قومی اور ملک کی بانی جماعت ہے‘ یہ اسکے دھڑوں کی قیادتوں کی کوتاہ اندیشی ہے کہ وہ ٹکڑوں میں بٹ کر خود کو ناقابل تسخیر نہیں ہونے دیتےں۔ ہمیں مجبوراً مسلم لیگی دھڑے ایک کرنے کی تاحال ناکام کوششوں کو دیکھتے ہوئے کہنا پڑتا ہے....
کرنا کرنا لوکی آکھن میں وی آکھاں کرنا
جیکر میں خوشبو نہ آوے اس کرنے نوں کیہہ کرنا
پاکستان آج جن کمزوریوں سے دوچار ہے‘ وہ صرف نظریہ پاکستان کے تقاقے پورا نہ کرنے کے باعث ہے‘ اس لئے پیر صاحب اس بات پر زور دیں کہ کیا بانی پاکستان نے ایک سے زائد مسلم لیگیں بنائیں تھیں؟ اگر نہیں تو ساری لیگیں یکجا ہو جائیں۔ پو
٭....٭....٭....٭
 پمز اسلام آباد میں ینگ اور ریگولر ڈاکٹرز میں تصادم ایک کابازو ٹوٹ گیا۔ ہمیں تو یہ فکر ہے کہ اب اس ٹوٹے ہوئے بازو والے ڈاکٹر کا علاج کون کرےگا؟ کیا مکافات عمل شروع ہوچکا ہے،ینگ ڈاکٹرز ہمارا سرمایہ ہیں،اُن پر قوم کا بے تحاشہ پیسہ خرچ ہوا ہے وہ بیروزگار بھی نہیں،بس ایک ہی اٹوٹ نعرہ ہے کہ ہمارا سروس سٹرکچر ٹھیک کرو اور اس تگ و دو میں وہ اپنا جسمانی سٹرکچر کہیں مجروح نہ کرا بیٹھے کیونکہ اب لڑائی دو مکھی ہوگئی ہے، حکومت اور ریگولر ڈاکٹرز سے ،ڈاکٹروں کو عرف عام میں فرشتہ کہاجاتا ہے، حالانکہ انکے پر جل گئے ہیں۔پنجاب کے ینگ ڈاکٹرز سے تو لاہور ہائیکورٹ نے کہہ دیا ہے کہ اُن کی ہڑتال غیر قانونی ہے،اب کیا مرکز کے ینگ ڈاکٹر چیف جسٹس افتخار محمد چودھری سے بھی یہی فیصلہ لینے کیلئے بے تاب ہیں، کہتے ہیں بیماروں کی بددعا جلد عرش سے جا ٹکراتی ہے، یہ کہیں ینگ ڈاکٹرز سے نہ ٹکرا جائے،حکومت بھی صوبائی ہویا مرکزی ینگ ڈاکٹرز کے مسئلے کا کوئی حل نکالے ورنہ یہ شفاخانے مردہ خانے بن جائیں گے اور پھر وہاں سے صدا بلند ہوگی....ع
مر گئے ہم تو زمانے نے بہت یاد کیا
 ان دنوں اس ہڑتال کے باعث پرائیویٹ ہسپتال ٹکسال بن گئے ہیں،کوئی نرسوں ہی سے درخواست کرے کہ وہ ینگ ڈاکٹرز کو منا کر ہڑتال سے واپس بلا لیں کیونکہ اُنکی سفید وردی میں بھی بڑی روحانی طاقت ہے۔
٭....٭....٭....٭

ای پیپر دی نیشن