(ضیاءکھوکھر)
پاکستان پیپلز پارٹی کی چوالیس برسوں پر محیط تاریخ کارکنوں اور قیادت کی طویل اور صبر آزما جدوجہد اور قربانیوں سے عبارت ہے۔ ملک کے محروم اور پسے ہوئے طبقات کے حقوق کی بازیابی اور تحفظ کے لیے ذوالفقار علی بھٹو نے ایوبی آمریت کو للکارا جس کے ساتھ ہی نوعمر پاکستان پیپلز پارٹی پر ریاستی جبر کا آغاز ہوگیا ۔ جب اس عوامی تحریک نے زور پکڑنا شروع کیا اسی وقت آمرانہ حکومت کی جانب سے پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت اور کارکنوں کے خلاف آمرانہ ہتھکنڈوں کے استعمال میں بھی تیزی آنے لگی اور وسیع پیمانے پر تشدد اور قید وبند جیسی کارروائیاں ایک معمول کی شکل اختیار کرنے لگیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی عوامی پذیرائی سے خائف ہوکر جنرل ایوب کی آمرانہ حکومت نے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کو پابند سلاسل کردیا۔ اس کڑے وقت میں پاکستان پیپلز پارٹی کو ایسی قیادت کی ضرورت تھی جو بھٹو صاحب کے جیل میں ہونے کے باوجود عوام کے ساتھ ان کے موثر رابطے کو برقرار رکھ سکے اور جمہوریت کی بحالی کی تحریک بھی پورے ولولے اور جوش و خروش سے جاری رکھنے کے لئے عزم و حوصلے اور ہمت کی مالک ہو۔ یہ وہ تاریخی لمحات تھے جب مستقبل کی خاتونِ اوّل بیگم نصرت بھٹو میدان عمل میں آئیں اور انہوں نے عوامی جدوجہد کی قیادت کرتے ہوئے ہوئے ملک میں حقیقی عوامی جمہوریت کے قیام کے لئے لافانی کردار ادا کیا۔
ان مشکل لمحات میں پاکستان پیپلز پارٹی کے کارکنوں او رعوام کے حوصلے بلند رکھنے کے لئے بیگم نصرت بھٹو نے بے شمار عوامی اجتماعات سے خطاب کیا او رعوام کو یہ پیغام دیا کہ چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کی گرفتاری سے یہ جمہوری تحریک ختم نہیں ہوگی۔ انہوں نے ان مواقع پر پُرعزم انداز سے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ پاکستان کے نوجوان ، مزدور ، کسان اور طلباء آمریت کے خاتمے اور بنیادی انسانی حقوق کی بحالی میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں گے۔ انہوں نے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کی رہائی تک تحریک جاری رکھنے کا اعلان کیا ۔ بیگم نصرت بھٹو کی ولولہ انگیز تقاریر کی گونج نے آمرانہ حکومت کے ایوانوں کو لرزہ براندام کردیا۔
ایوبی آمریت کے خلاف یہ عوامی جمہوری تحریک کا میابی سے ہمکنار ہوئی جس کے نتیجہ کے طور پر ملک میں پہلے عام انتخابات منعقد ہوئے۔ ان انتخابات میں پاکستان پیپلزپارٹی نے چیئرمین بھٹو کی ولولہ انگیز قیادت میں عوام دوست سیاسی انتخابی پروگرام اور کارکنوں کی انتھک جدوجہد سے عوام دشمن قوتوں کو عبرتناک شکست دی۔ دسمبر1971ءمیں قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو نے عنان حکومت سنبھالی ۔ یہ وہ موقع تھا جب بیگم نصرت بھٹو کی خداداد صلاحیتیں اجاگر ہوئیں اور ان کے کردار کے اعلیٰ جوہر اور بھی زیادہ کھل کر سامنے آئے جب انہوں نے روایتی خاتون اول کے کردار تک محدود رہنے کی بجائے اپنے عظیم شریک سفر کے ساتھ ملک کی تعمیر و ترقی میں تاریخی اور عوام دوست کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا۔ دکھی انسانیت کے درد سے موجزن دل کے ساتھ ان کی پہلی ترجیح ملک کے محروم عوام اور پسے ہوئے طبقات کی فلاح و بہبود کے لئے اقدامات کرنا تھا۔ پیپلز پارٹی کی تنظیمی سرگرمیوں کو مربوط رکھنے اور کارکنوں کے مسائل کو سننے، سمجھنے اور ان کے حل کے لئے روزانہ کی بنیاد پر ان سے ملاقاتیں کرتیں۔ اپنی انسان دوست شخصیت اور کارکنوں کے مسائل میں ذاتی دلچسپی لینے کی وجہ سے انہیں نہ صرف پاکستان پیپلز پارٹی میں تمام سطحوں پر گہرے احترام اور قدر و منزلت سے دیکھا جانے لگا بلکہ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ وہ کارکنوں کی ہر دلعزیز رہنما بن چکی تھیں۔
چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے اس عہد حکومت میں سیاسی اور حکومتی سطح پر کئی تاریخ ساز فیصلے او ر اقدامات کئے ان میں اور ملکی اور بین الاقوامی سطح پر ملک کے استحکام بیگم نصرت بھٹو کی بصیرت کا بہرحال انتہائی اہم کردار اور حصہ رہا۔
وقت کا دھارا آگے بڑھا اور تاریخ نے یہ تلخ حقیقت ایک بار پھر ملاحظہ کی کہ عوام دشمن قوتوں کو عوام کا ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہونا ایک آنکھ نہ بھایا۔ نتیجہ میں ذوالفقار علی بھٹو کی عوامی قیادت کے خلاف روز اول سے جاری سازشو ں نے تقویت اختیار کی اور ملک میں ایک بار پھر آمریت کی طویل سیاہ رات مسلط کرنے کی مذموم تیاریاں مکمل کرلی گئیں۔ ایک فوجی آمر نے ملک میں مارشل لاءنافذ کر دیا۔ چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کی عوامی طاقت سے بوکھلا کر غاصب حکمرانوں نے ان کو گرفتار کرکے عوام سے دور کرنے کی تدبیر کی۔
غاصب حکمرانوں کو اس امر کا اندازہ بخوبی ہو گیا کہ قائد عوام بھٹو کی عوامی مقبولیت کے سامنے بند باندھنا ممکن نہیں لہٰذا انہیں جسمانی طور پر راستہ سے ہٹانے کا ناپاک منصوبہ تیار کرلیا گیا ۔ شدید ابتلاءکے ان دنوں میں بیگم نصرت بھٹو اپنی بہادر صاحبزادی بینظیر بھٹو کے ہمراہ نظربندی میں زندگی بسر کررہی تھیں۔ ان سخت ترین حالات میں بھی انہوں نے جبر کا مقابلہ جس ہمت و جرا¿ت کے ساتھ کیا اس کی تاریخ میں بہت کم مثالیں دستیاب ہوں گی۔بیگم صاحبہ نے اپنے شریک زندگی اور عوام کے ہردلعزیز رہنماچیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کی زندگی بچانے کے لئے انتھک کاوشیں کیں۔ قائد عوام کی شہادت کے بعد انہوں نے جمہوریت کی بحالی اور آمریت کے خاتمہ کے لئے عظیم مزاحمتی تحریک شروع کی۔ انہوں نے اپنے سیاسی تدبر اور خداداد قائدانہ صلاحیتوں کی بدولت ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو قائل کرلیا کہ بحالی¿ جمہوریت کے لئے مشترکہ جدوجہد کے بغیر مارشل لا کا خاتمہ نہیں ہو سکتا۔
جنرل ضیا الحق کی آمریت کے خلاف جدوجہد کے فیصلہ کن موڑ پر بیگم نصرت بھٹو کو ایک اور صدمہ¿ جانکاہ سے دوچار ہونا پڑا جب پیرس میں مقیم ان کے صاحبزادے شاہنواز بھٹو پراسرار طور پر اپنے فلیٹ میں مردہ پائے گئے۔ پے در پے صدمات اٹھانے کے باجود بیگم نصرت بھٹو بحالی¿ جمہوریت کی تحریک کو آگے بڑھانے کے لئے اپنی عظیم بیٹی بینظیر بھٹو کی ہر قدم پر رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیتی رہیں۔
مارشل لا کے خاتمہ کے بعد محترمہ بینظیر بھٹو کے مختصر عوامی دورِ حکومت کے دوران بھی بیگم نصرت بھٹو کا کارکنوں کے ساتھ گہرا رابطہ استوار رہا۔ اور وہ عوامی فلاح و بہبود کے حوالہ سے حکومت کو بھرپور رہنمائی اور معاونت بہم پہنچاتی رہیں۔ انہیں اپنے بڑے فرزند میر مرتضٰے بھٹو کی ناگہانی اور المناک وفات کاصدمہ بھی برداشت کرنا پڑا تاہم بیماری کی وجہ سے اپنی عظیم بیٹی بینظیر بھٹو کی شہادت کی خبر انہیں معلوم ہی نہ ہوسکی۔ جمہوریت اور عوامی حقوق کے لئے عظیم قربانیاں رقم کرنے والی بیگم نصرت بھٹو جن کی پوری زندگی طویل جدوجہد اور مصائب کا سامنا کرتے ہوئے بسر ہوئی23 ۔ اکتوبر 2011 کو ہم سے بچھڑ گئیں۔ ان کا عظیم کردار اور قربانیاں پاکستان اور دنیا بھر کے جمہوریت پسندوں کے لئے ہمیشہ مشعلِ راہ رہیں گی۔