”یوسف رضا، اللہ کی رضا، ایک کیس کے دو فیصلے“

میں چونکہ عوامی آدمی ہوں، گو میرا تعلق عوامی لیگ سے نہیں، مگر میں زبان خلق نقارہ خدا پہ صدق دل سے یقین رکھتا ہوں لہذا آجکل عوامی حلقوں میں گونجنے والے اس نقارے کا ترجمان ہوں۔ کہ ساڑھے چار سال کروڑوں عوام کو ذہنی کرب میں مبتلا کئے رکھنا، کہ صدر کو استثنیٰ حاصل ہے یا نہیں؟ حالانکہ یہ اگر آئین میں لکھا ہے، تو یہ زیر بحث ہی نہیں لانا چاہئے تھا، جب تک اس کی قومی اسمبلی میں ترمیم نہ ہو جاتی۔ اگر موجودہ قومی اسمبلی سے اس کی توقع نہیں تھی۔ تو پھر ایسا فیصلہ آنے سے کس کی سبکی ہوئی؟ جہاں تک یوسف رضا گیلانی کا تعلق ہے، تو پھر یہ فیصلہ ان کے حق میں ہے، ان پر لگے کرپشن، اقربا پروری کے الزامات سے قطع نظر، کیونکہ سپریم کورٹ میں بدعنوانی کا معاملہ زیر بحث نہیں تھا۔ اس فیصلے کی رو سے سابق وزیراعظم کو سپریم کورٹ میں جانا چاہئے، کہ اگر صدر کے استثنیٰ کو اعلیٰ عدلیہ نے مان لیا، تو پھر گیلانی آئینی وزیراعظم ہیں۔ ساڑھے چار سال تک صدر نے عدلیہ کا سہارا لئے رکھا، یا پھر عدلیہ نے صدر کو مدت پوری کرنے کی سہولت فراہم کی؟
قرآن پاک میں آل اور مال کو، فتنہ قرار دیا گیا ہے، کہ وہ والدین کو اپنی صحبت میں مبتلا کرا کے شعائر اسلامی کے خلاف عمل کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ لہٰذا سیاسی گرو نے بھی یہی گر استعمال کرکے گیلانی کو مجبور کر دیا کہ وہ دفاعی اور مزاحمتی حکمت عملی پہ مجبور ہو جائے، قومی اسمبلی میں آستینیں چڑھا کر ڈیسکیں بجوانے والا وزیراعظم اب پہلا سیاسی بیان یہ دیتا ہے کہ قومی اسمبلی ربڑ سٹیمپ ہے، اور سارے فیصلے باہر ہوتے ہیں۔ ان کے اس بیان دینے کی دیر تھی کہ ایوان صدر کے دروازے دوبارہ کھول دیئے گئے، اور سیاسی ہرکارے انہیں چپقلش کے مضمرمات کے دوررس نتائج سمجھانے کے بعد دوبارہ ایوان صدر کے مکین بنانے میں کامیاب ہو گئے، اور ایوانوں کا مکین، مسکین صورت بنائے اپنے لاکھوں کے سوٹوں کی لاج رکھنے پہ مجبور بنا دیا گیا۔ عدالت عظمیٰ کے بلوائے پہ وکٹری کا نشان بتاتے ہوئے، سینکڑوں کی کابینہ اتحادیوں، اور گورنر کے ساتھ جب وہ وہاں جاتا رہا ہے، تو اب اس کو اس بات کی وضاحت اور اپنے کھوئے ہوئے وقار کی بحالی کیلئے بھی انصاف کیلئے دستک دینی چاہئے، مجھے قانونی موشگافیوں کا اتنا نہیں پتہ، لیکن اتنا توپتہ ہے، کہ اگر کسی معزز و محترم شخصیت کا کوئی بیان آتا ہے۔ تو اس پر یقین کئے بغیر چارہ بھی نہیں ہوتا۔ ایسے سابق صدر جناب رفیق تارڑ صاحب کا یہ بیان بھی خاصے عرصے تک آتا رہا کہ میں سابق صدر نہیں بلکہ میں اب بھی آئینی صدر ہوں اور ان کی حامی جماعت اس بیان کی تائید و توثیق بھی کرتی رہی، مگر عملی طور پر عدالت عظمیٰ میں نہ گئی بلکہ انتخاب کے موقعے پر صدر رفیق تارڑ صاحب کی بجائے ایک اور جج صاحب کو انتخابی معرکے میں سامنے لے آئی۔
اب ایسا دعویٰ کرنیوالے وزیراعظم کو بھی سازش کے بے نقاب کرنے کیلئے انصاف کا در کھٹکھٹانا چاہئے نہ کہ اپنا سر پٹینے پر گزارہ کرکے بیٹھ جانا چاہئے اکیلا آصف ہاشمی آخر کب تک ائر پورٹ سے لاتا لے جاتا رہیگا۔ وزیر مذہبی امور اپنے اوپر پڑی افتاد کو اللہ کی رضا نہیں مانتا.... تو یوسف رضا اسے اللہ کی رضا کیوں سمجھتا ہے؟ جہاں تک چیف جسٹس افتخار چودھری صاحب کا بیان تواتر سے آتا رہتا ہے کہ ہم آئین اور قانون کی عملداری کیلئے آخری حد تک جائیں گے، چاہئے آسمان ہی ہم پہ گر جائے، مظلوموں کی آہ عرش الٰہی کو بھی ہلا دیتی ہے، آسمان فیصلہ سنانے پہ تو نہیں گرا کرتا، ہاں البتہ اگر فیصلوں پر عمل نہ کرایا گیا۔ تو اللہ نہ کرئے ضرور گریگا، اور جب تک آسمان گریگا، تو پھر اللہ کسی رو رعایت کے بغیر اصل عدل و انصاف کے تقاضے پورے گریگا.... اگر کسی جانور نے دوسرے جانور کو سنگ بھی مارا ہوگا.... تو وہ اس کا بدلہ دلائے گا۔
جو فیصلہ عدالت عظمیٰ سے آتا ہے، وہ تو قوم کا ہر فرد روز سناتا ہے، مگر عمل نہ وہ کرا سکتا ہے، نہ ملک کا چیف جسٹس، بلکہ ایک مجسٹریٹ اتنا بااختیار ہوتا ہے کہ وہ اپنے فیصلے کی توہین پر مجرموں کو جیل بھیج دیتا اور اپنے منصب کی لاج رکھ لیتا ہے۔ لہذا چیف جسٹس صاحب کو اپنے فیصلوں پر سختی سے عملدار کرا کے اپنے منصب کی لاج، اور کروڑوں عوام کا مان قائم رکھنا چاہئے، جنہوں نے ان کی بحالی کیلئے جانی قربانی بھی دی تھی.... اور ابھی تک دے رہے ہیں۔ درمیانی فیصلے کی وجہ سے اعتزار احسن صحیح م¶قف پر ہونے، اور چیف کی بحالی پر آرام قربان کرنے کے باوجود، پرانہ سالی میں اپنا بقیہ مستقبل اور عزت داﺅ پہ لگا بیٹھے ہیں، مگر عرفان قادر نازیبا اشارے کرنیکے باوجود اس لئے محفوظ ہیں کہ بقول جج وہ ان کے ”کولیگ“ ہیں.... اسی طرح بابر اعوان بھی محفوظ و مامون ہیں کہ وہ بھی وکیل ہیں۔ اور توہین عدالت کا اطلاق اور اس کا فیصلہ نجانے کب ہوگا اور اس کا جواب شاہدکوئی نہ دے سکے کیونکہ آسمان تو قیامت والے دن ہی گرے گا!!!

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...