ادارے وہی کامرانیوں کی منزلیں طے کرتے ہیں جن کے کرتا دھرتا متعلقہ فیلڈ میں مہارت اور تجربہ رکھتے ہوں۔ ایسا بھی ہوا کہ کچھ لوگوں نے ناتجربہ کاری کے باوجود اپنی اہلیت‘ قابلیت‘ شبانہ روز محنت‘ ایمانداری‘ ملک کی خدمت کرنے کی لگن اور حقدار کھلاڑیوں کو انکا حق دےکر انصاف کا بول بالا کیا اور ایسی کامیابیاں حاصل کیں کہ اپنے اپنے شعبوں میں تجربہ کاروں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ ائر مارشل نور خان اس کی ایک عمدہ مثال ہیں، بدقسمتی سے ایک اعلیٰ منتظم کی حیثیت سے ہمارے سپورٹس ایڈمنسٹریٹرز نے نور خان کو کاپی نہیں کیا۔ ذکاءاشرف بھی انہی خطوط پر آگے بڑھیں‘ ان کو اس فیلڈ میں بہترین دماغ دستیاب ہو سکتے ہیں، انکو ساتھ ملائیں۔ اپنی آنکھیں اور کان کھلے رکھیں‘ میرٹ کو اصول بنائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ کرکٹ کو اس کی معراج تک نہ پہنچا دیں۔ وہ صدر آصف علی زرداری معتمد خاص بھی ہیں ان کےلئے اپنے عزائم کو عملی صورت دینا مزید آسان ہے۔ گذشتہ دنوں ذکاءاشرف نے نوائے وقت کو پینل انٹرویو دیا۔ ان کی باتوں سے لگا کہ وہ پاکستانی کرکٹ کےلئے کچھ کر گزرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں کرکٹ کے بنیادی ڈھانچے میں موجود خامیوں کو دور کرکے نوجوانوں کو بہترین مواقع فراہم کرنا چاہتا ہوں۔ خواہش ہے کہ کھلاڑیوں کو وہ تمام سہولیات مہیا کروں جن سے ان کی کارکردگی میں بہتری آئے۔ ملکی کرکٹ سے سفارش کلچر کے خاتمے اور میرٹ کی پالیسی پر ہر حال میں عمل کیا جائےگا۔ انہوں نے کلب کرکٹ کے فروغ سے عملی اقدامات اٹھانے اور اس سطح پر موجود مسائل کے خاتمے اور کلب کرکٹ کو مضبوط کرنے کے عروج کا بھی اظہار کیا۔ ذکاءاشرف این سی اے سے بھی بہتر اور بھرپور انداز میں فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ بورڈ چیئرمین پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کی واپسی کے حوالے سے بھی پرعزم اور پرامید ہیں جبکہ بین الاقوامی کرکٹ کے متبادل کے طور پر کرکٹ لیگ کے انعقاد کے بھی خواہشمند ہیں۔
چودھری ذکاءاشرف کو اعجاز بٹ کے بعد کرکٹ بورڈ کا چیئرمین مقرر کیا گیا تھا۔ اس سے پہلے وہ زرعی ترقیاتی بنک کے سربراہ کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے تھے اور اب وہ ملک کے مقبول ترین کھیل کے ادارے کے چیئرمین کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ کرکٹ کے انتظامی معاملات اور براہ راست اس کھیل کا وہ کوئی تجربہ نہیں رکھتے اور اسکا اعتراف بھی کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ سابق کھلاڑیوں سے ہر وقت مشاورت کا عمل جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے بورڈ میں آنے کے بعد ہنگامی حالت کا نفاذ نہیں کیا۔ جو جہاں کام کر رہا تھا اسے مزید کام کرنے کا موقع بھی دیا ہے لیکن شاید اب تبدیلی کا موسم آنےوالا ہے۔ بہت جلد اہم عہدوں پر تبدیلیوں کا مرحلہ وار امکان موجود ہے۔ چودھری ذکاءاشرف ایک کامیاب بزنس مین تصور کئے جاتے ہیں۔ ملک میں بین الاقوامی کرکٹ کے نہ ہونے سے بورڈ کے خزانے پر ہر گزرتے دن کے ساتھ بوجھ بڑھنے کا امکان ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ پی سی بی کو اس مشکل وقت میں اپنے دور میں منافع بخش ادارہ بنانے میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں۔ ذکاءاشرف کرکٹ بورڈ کو کارپوریٹ کلچر کے تحت چلانے کے خواہشمند ہیں لیکن اس کےلئے ضروری ہے کہ انکی پراڈکٹ یعنی اعلیٰ پائے کے کرکٹرز ٹیم میں شامل ہوں اور ان کی انتظامی ٹیم بھی اتنی ہی باصلاحیت‘ عقلمند‘ بروقت فیصلہ کرنے کی قوت رکھنے اور حالات کو سمجھنے والے افراد پر مشتمل ہو۔ مثبت سوچ، باصلاحیت اور ماہر افراد کی ٹیم تشکیل بہرحال چیئرمین کی اپنی ذمہ داری ہے۔ چیئرمین کے مطابق مستقبل کی ٹیم تیار کرنے کا ٹاسک بھی ذمہ داروں کو سونپ دیا گیا ہے۔ چودھری ذکاءاشرف کےلئے کرکٹ کا کلچر نیا ہے، براہ راست قومی کرکٹرز سے رابطے اور کرکٹ کے انتظامی معاملات کے حوالے سے انہیں کچھ مسائل کا سامنا بھی ہے۔ انکا تعلق حکمران جماعت پیپلز پارٹی سے بھی ہے، یہ چند ایک خامیاں ہیں جن کی وجہ سے مسائل آڑے آتے ہیں۔ عوامی سطح پر اپنے تاثر کو مزید بہتر بنانے اور میڈیا کے ساتھ خراب تعلقات کو بہتر بنانے کےلئے انہوں نے چند افراد کی خدمات بھی حاصل کی ہیں تاکہ کھیل کے حوالے سے کرکٹ بورڈ سے ناراض لوگ ساتھ ملائے جائیں اور میڈیا کے ساتھ تعلقات کو بھی خوشگوار بنایا جائے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ جن لوگوں کو تعلقات جوڑنے اور مضبوط بنانے کی ذمہ داری دی گئی ہے ان کا رویہ اور طرز عمل افسوسناک حد تک غیر شائستہ اور غیر مہذب ہے۔ یہ وہ نادان دوست ہیں جو شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بننے کے چکروں میں نقصان کرواتے ہیں۔ ذکاءاشرف خود کو کرکٹ بورڈ کو کامیاب منافع بخش ادارہ بنانا چاہتے ہیں اور کھیل کی ترقی کےلئے بھی کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ وہ اپنے مشیروں پر اعتماد ضرور کریں لیکن اندھا اعتماد کرنے کی صورت میں وہ تصویر کا دوسرا رخ دیکھنے سے محروم رہ سکتے ہیں اور اس کا نقصان نہ صرف انہیں بلکہ پاکستان کی کرکٹ کو بھی ہو گا۔ ہماری نیک تمنائیں اور خواہشات کرکٹ بورڈ کے سربراہ کے ساتھ ہیں۔