اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) عدالت عظمیٰ نے ایبٹ آباد آپریشن کے بعد میڈیا کے کردار کے حوالے سے دائر درخواست کی سماعت 6 نومبر تک ملتوی کرتے ہوئے سی ڈیز اور پروگرامز کے ٹرانسکرپٹ طلب کر لئے ہیں، درخواست گزار کو ہدایات کی ہیں کہ وہ قابل اعتراض مواد کی نشاندہی کریں جس سے سکیورٹی فورسز کا مورال پست ہوا ہو۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ایجنسیوں سے متعلق میڈیا میں اکثر سوالات اٹھتے رہتے ہیں۔ میڈیا کے اس کردار کو توہین آمیز نہیں کہا جا سکتا۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری اور جسٹس جواد ایس خواجہ پر مشتمل دو رکنی بنچ نے سردار محمد غازی کی جانب سے میڈیا کے کردار کے حوالے سے درخواست کی سماعت کی تو درخواست گزار کے وکیل ابراہیم ستی نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ایبٹ آباد آپریشن اور مہران بیس پر حملے کے بعد فوج کا مورال پست کرنے کے لئے میڈیا نے منفی رپورٹنگ کی الیکٹرونک میڈیا پروگرامز کے ذریعے تاثر دینے کی کوشش کی کہ ایبٹ آباد آپریشن سے متعلق اعلیٰ عسکری حکام پہلے سے ہی آگاہ تھے۔ نجی ٹی وی کے 2 مئی 2011ءکے ایک پروگرام میں کہا گیا کہ ہیلی کاپٹر تربیلا غازی سے اڑے، آپریشن کے متعلق اعلیٰ قیادت کو علم تھا درخواست گزار نے 9 پروگراموں کی سی ڈیز پیش کیں اور کہا کہ ہمارے ہاں تاثر ہے کہ پریس اور میڈیا کسی کے کنٹرول میں نہیں بغیر ثبوت کے تنقید کی جاتی ہے۔ عدالت آزادی اظہار اور آزادی صحافت کے حوالے سے واضح احکامات دے۔ ابراہیم ستی نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ٹی وی لائسنس کے اجراءکے لئے پیمرا کے کوڈ آف کنڈکٹ میں فوج اور عدلیہ پر تنقید نہ کرنے کی شرط موجود ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ آپ مکمل اردو ٹرانسکرپٹ ہمیں مہیا کریں، جس میں قابل اعتراض مواد کی نشاندہی کی گئی ہو۔ ابراہیم ستی نے عدالت سے استدعا کی کہ پیمرا کے ضابطہ اخلاق پر من و عن عمل کرایا جائے، ایسا حکم جاری کیا جائے کہ فوج اور عدلیہ کے خلاف طعنہ زنی نہ ہو جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس نوعیت کا ایک کیس اسلام آباد ہائیکورٹ میں بھی زیرسماعت ہے۔ مزید سماعت 6 چھ نومبر تک ملتوی کر دی گئی۔