سپریم کورٹ رجسٹری میں کراچی امن و امان کیس کی سماعت جسٹس انورظہیرجمالی کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نےکی۔ چیف جسٹس کی ہدایت پرایڈیشنل چیف سیکرٹری وسیم احمد، ایڈیشنل آئی جی کراچی، سندھ رینجرزکے نمائندے بھی عدالت میں پیش ہوئے۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ عبدالفتح ملک نے صوبائی حکومت کی طرف سے رپورٹ عدالت میں پیش کی۔ جسٹس انورظہیرجمالی نے رپورٹ پرعدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئےریمارکس دیے کہ اگر رپورٹ جامع ہوتی تو دوبارہ سماعت کی ضرورت نہ ہوتی، عدالت نے استفسار کیا کہ لائسنس شدہ اسلحہ رکھنے سے متعلق قانون سازی کیوں نہیں کی گئی، نادرا میں اگرتمام لائسنس کا ڈیٹا درج ہوجاتا تو پتاچلتاکس کے پاس بیس بیس لائسنس ہیں، ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ کوشش کررہے ہیں جلد قانون سازی کریں گے۔ جس پرجسٹس امیرہانی نےریمارکس دیے کہ جب قانون سازی کرنا چاہیں توآدھے گھنٹے میں سب کام ہوجاتا ہے، ایڈوکیٹ جنرل کا کہناتھا کہ کچھ دوستوں کو اعتراض ہے، صرف سندھ میں ایسا قانون کیوں بنایا جائے جو پورے ملک میں نہیں۔ جسٹس خلجی عارف نے آئی جی سندھ کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ بچوں کا گھر سے نکلنا مشکل ہوگیا ہے عام آدمی کو کیا تحفظ حاصل ہے، جرائم پیشہ افراد کو روکنا حکومت کی ذمہ داری ہے،آئی جی سندھ بغیر اسکواڈ کے گاڑی لے کرنکلیں اورروزشہرکاچکرلگائیں،ڈر لگتا ہے تو عہدہ چھوڑ دیں۔ انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ کسی پولیس والے کواسکواڈ کی ضرورت نہیں،عام لوگوں کوتحفظ دیاجائے ،افسران کے ساتھ اسکواڈ سڑکوں پرعام لوگوں کوگالیاں دیتاہے۔ جسٹس سرمد جلال عثمانی نے ریمارکس دیے کہ بلاؤل ہاؤس کے باہر پچاس فٹ بلند حفاظتی دیوارکھڑی کردی گئی مزید کتنی سیکیورٹی چاہیے۔
کراچی امن و امان کیس: سپریم کورٹ کا حکومت سندھ اور پولیس کی رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار، آئی جی پولیس روزانہ بغیراسکواڈکے شہر کا چکرلگائیں، ڈرلگتا ہے تو عہدہ چھوڑدیں۔ عدالت
Oct 23, 2012 | 13:17