باراک اوباما اورمٹ رومنی کےدرمیان فیصلہ کن مباحثےمیں امریکی خارجہ پالیسی پربھرپوربحث، مشرق وسطٰی، پاکستان اور ایران کے جوہری ہتھیاروں سمیت متعدد معاملات پر اپنی رائے کا اظہار۔

فلوریڈا کی یونیورسٹی میں ہونیوالے تیسرےاورفیصلہ کن مباحثےمیں امریکی صدراوباما خاصے پراعتماد نظرآئے جبکہ ریپبلکن امیدوارمٹ رومنی بھی ہلکےپھلکےاندازمیں مزاح کا سہارالیتےرہے۔ مباحثےمیں مشرق وسطٰی کی صورتحال، شام، اور اوسامہ بن لادن کی ہلاکت کے معاملات پربحث ہوئی۔ دونوں رہنماؤں نے ایک دوسرے کی خارجہ پالیسی کوخوب تنقید کا نشانہ بنایا۔ مٹ رومنی نے اسامہ بن لادن کی ہلاکت پرباراک اوبامہ کومبارکباد دی، تاہم اس کے ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ موجودہ پالیسی انتہاپسندی کے خاتمے میں ناکام ثابت ہورہی ہے۔ جس کے جواب میں امریکی صدر باراک اوبامہ کا کہنا تھا کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ جاری رہے گی، اور گریٹر اسرائیل کا تحفظ کریں گے جبکہ چیلنجرمٹ رومنی کی خارجہ پالیسی ہی درست نہیں ہے اور وہ امریکہ کا سب سے بڑا دشمن روس کو قرار دے کر اسے ماضی کی سرد جنگ کے دور میں بھیجنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خارجہ پالیسی کی طرح مٹ رومنی امریکہ کو انیس سو بیس اور انیس سوپچاس کی فرسودہ معاشی و سماجی پالیسیاں دے رہے ہیں۔ ریپبلکن پارٹی کے امیدوار بھی اس موقع پر پیچھے نہ رہے اور انہوں نے امریکی صدر کی مشرق وسطٰی اور شمالی افریقہ میں پالیسیوں پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ان پالیسیوں کی وجہ سے علاقے میں القاعدہ کا خطرہ بھی موجود ہے، ایٹمی پاکستان کو تنہا نہیں چھوڑسکتے۔ لیبیا میں امریکی سفیر کی ہلاکت پر ری پبلکن چیلنجر نے صدر اوبامہ پر دباؤ ڈالتے ہوئے کہا کہ لیبیا میں امریکی سفیر کی ہلاکت اور ایران کے ایٹمی ہتھیاروں کے حصول پر موجودہ حکومت کی پالیسی کمزور رہی۔  دونوں امیدواروں کے درمیان تجارتی صورتحال پر بھی بحث کی گئی، جبکہ چین کے ساتھ تجارت کو خصوصی طور پر موضوع بنایاگیا۔ بحث کے اختتام پردونوں امیدواروں نے امریکی عوام سے ووٹ کی اپیل بھی کی۔ چھ نومبر کو ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات کا فیصلہ تو وقت آنے پر ہی پتہ چلے گا، تاہم سروے رپورٹس کے مطابق دونوں امیدواروں کو چھیالیس فیصد حمایت حاصل ہے۔

ای پیپر دی نیشن