پاک افغان خطے کی تاریخ

Oct 23, 2013

محمد یوسف عرفان

کابل جنوبی ایشیاء کی تجارتی، تہذیبی، عسکری اور مذہبی راہداری ہے گو جنوبی ایشیاء میں اسلام کی ابتدائی آمد جنوبی بھارت کیرالہ وغیرہ اور سندھ کے ذریعے ہوئی مگر مؤثر مذہبی روایتی راہداری پاک افغان خطہ ہی رہا ہے۔ نیز جنوبی ایشیاء کے اکثر اولیائے کرام کا مسکن اور مرکز مذکورہ پاک افغان بلکہ وسط ایشیائی خطہ ہے۔ شاعر مشرق علامہ اقبال نے پاک افغان (افپاک) خطے کی عالمی اہمیت کے پیش نظر کابل کو کلید ایشیاء کہا۔ موجودہ حالات اور واقعات نے ہمارے قومی شاعر علامہ اقبال کے مذکورہ بیان کی تصدیق کی ہے۔
مسلمانوں سے قبل مذکورہ پاک افغان خطے سے آریائی جنگجو نسلیں شمالی ہند/ بھارت میں آئیں اور مقامی دراوڑی حکمرانوں کو شکست دی۔ موجودہ دور میں مذکورہ راکھشس نسلوں کو اچھوت، دلت، شودر، مرہٹہ وغیرہ کہا جاتا ہے اور انکی بھارتی آئینی حیثیت SC/ST/OBC ہے اور یہ بھارتی آبادی کا تقریباً 70% ہیں۔ مسلمان غزنوی، غوری، ابدالی، مغل وغیرہ بھی مذکورہ راہداری سے دہلی پہنچے اور سابق آریائی برھمن حکمرانوں کو شکست دی۔ مسلمانوں کی آمد سے برھمن کا راج ختم ہوا مگر برہمن نے اچھوت نسلوں کو ’’کرما‘‘ اور ’’ورنا‘‘ نظریات کے تحت بت پرستی اور برہمن آریائی نسلوں کی عبادت کے چکر میں جکڑ لیا۔ مسلمان ہندی حکمرانوں کے دور میں امیر تیمور اور نادر شاہ مذکورہ راہداری سے دہلی پہنچے۔ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء کے دور میں الخو بیگ بھی مذکورہ راہداری سے نیچے آیا اور دہلی کا محاصرہ کیا۔ القصہ مسلمان حکمرانوں نے کابل کے ناپسندیدہ فاتحین کو پہاڑوں پر روکنے کیلئے باقاعدہ شمال سرحدی پالیسی بنا رکھی تھی۔ شیر شاہ سوری کی جی ٹی روڈ اور روہتاس قلعہ اور مغلوں کی لاہور قلعہ کی تعمیر مذکورہ بالا پالیسی کا نتیجہ تھی۔ ہندوستان یعنی جنوبی ایشیاء میں مغربی قوتوں (انگریز، فرانسیسی) کی راہداری بنگال اور میسور یعنی جنوبی اور مشرقی بھارت رہی ہے۔ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ جنوبی ایشیاء میں مسلمان حکومت کے زوال کا بنیادی سبب جنوبی بھارت کی دلت مرہٹہ قوت اور کابلی و قبائلی خٹک مزاحمت ہے۔ انگریز نے زوال پذیر ہندی مسلمان حکومت کے خاتمے کیلئے اچھوت اور برہمن نسلوں سے مدد لی۔ مسلمان حکمران طبقوں کی باہمی ناچاکی کو ہوا دی۔ مسلمانوں کو مذہبی اور نسلی قومیتوں میں بانٹا اور اس طرح سابق مسلمان حکمرن قوم کو غلامی کی ز ندگی میں جکڑ لیا۔ انگریز دلی پر قابض ہونے کے باوجود کابلی و قبائلی علاقے کے زیر دام نہیں رکھ سکا۔ مسلمان قوم نے جنگ آزادی 1875ء کی ناکامی کے باوجود اسلام کے قومی و ملی نظریات سے وابستگی مضبوط رکھی اور سرسید ا حمد خان، مولانا قاسم نانوتوی، علامہ اقبالؒ اور قائداعظم ؒوغیرہ کی قیادت میں ایمان، اتحاد اور تنظیم کے علم تلے پاکستان بنایا۔ لیاقت علی خان اور جنرل ایوب کے ادوار میں پاک افواج اور قبائلی عوام نے متحد ہو کر اکھنڈ بھارت (بھارتی استعمار) کو روکا۔ جبکہ جنرل ضیاء الحق کے دور عظمت و عزیمت میں قبائلی و کابلی مزاحمتی قوتوں نے پاکستان کی مدد سے نہ صرف آہنی روسی استعمار کو روکا بلکہ بھارتی استعماری عزائم کیخلاف بند بھی باندھے رکھا تھا۔ جب روس نے افپاک مزاحمتی قوتوں سے شکست کھائی تو خطے کی ابھرتی ہوئی عظیم ترین مزاحمتی کو کچلنے کیلئے بنیاد پرستی، انتہا پسندی اور دہشت گردی کی جنگ کا سہارا لیا ۔ روس، بھارت اور مغربی ممالک نے مشترکہ مفادات پر مبنی عالمی اتحاد بنایا اور عالمی پالیسی بنائی کہ خطے کی مزاحمتی قوتوں کو کچلنے کیلئے پاکستان کو حلیف بنانا ضروری اور مجبوری ہے۔ آج عالمی اتحادی ممالک پاکستان کی مدد سے کابل پر قابض ہیں۔ کابل میں مستقبل کی دو عالمی قوتیں نمبرد ازما ہیں۔ دونوں قوتوں کی بقاء اور سلامتی کراچی اور گوادر کی بہترین بندرگاہوں تک رسائی ہے۔ گوادر اور کراچی پاکستان کی ملکیت ہیں۔ پاکستان دہشت گردی کی جنگ کا عالمی اتحادی حلیف بن کر بھاری جانی و مالی نقصان کے علاوہ عالمی اور قبائلی قوتوں کا سبزہ بیگانہ (محاذ جنگ) بن گیا ہے۔ جنگ کے بدترین اثرات پاکستانی معیشت، عسکریت، سیاست و ریاست پر اثرانداز ہوئے ہیں۔ عوام مہنگائی، غربت اور روز مرہ کی بنیادی ضروری اشیاء خریدنے کی سکت سے محروم ہو رہے ہیں۔ عوام بدامنی، بے انصافی اور حکمرانوں کی قومی بے حسی کے باعث مشتعل اور مضطرب ہیں۔ دریں صورت جو قوت عوام کو امن اور سہولت فراہم کریگی، وہی نجات دہندہ اور کل کی مضبوط حکمران ہو گی۔ دریں تناظر پاکستان کے پاس دو آپشنز ہیں پہلی آپشن پاکستان کا عالمی اتحادی ممالک کا غیر مشروط حلیف بنا رہے۔ جس میں ڈرون حملے، دھماکے، پاک افغان اور پاک بھارت سرحدی کشیدگی/ جھڑپوں کے علاوہ غیر مشروط پاک بھارت دوستی، تجارت اور بھارت کی مرضی کی امن آشا ہے۔ دوسرا آپشن کابلی و قبائلی مزاحمتی قوتوں کیساتھ مشروط یا غیر مشروط امن معاہدہ ہیں۔ یہ معاہدہ بالآخر پاکستان میں امن قائم کر دیگا مگر پاکستان کو مزاحمتی قوتوں کے ساتھ اعلانیہ حلیف یا غیر جانبدر بن کر رہنا پڑے گا۔ کیونکہ پاکستان کی غیر جانبدار پالیسی بھی عالمی اتحادی قوتوں/ امریکہ و بھارت کیلئے مہلک ہے۔ لہٰذا مزاحمتی قوتوں کے ساتھ امن مذاکراتی عمل ہی پاکستان کے مستقبل کا منظر متعین کریگا۔ امریکہ و اتحادی ممالک بشمول بھارت افغانستان کے چٹیل اور قبائلی علاقوں کے سرسبز پہاڑوں پر رہنے کیلئے نہیں آیا اسے ہر صورت نیو ورلڈ آرڈر کی تکمیل چاہئے۔ 

مزیدخبریں