بجلی کے صارفین پر 2نئے ٹیکس عائد،6فیصد اضافی رقم ادا کرنا پڑے گی۔
ہمارے بجلی کے بلوں میں پہلے ہی اتنے زیادہ ٹیکس جبری طورپر داخل ہوچکے ہیں کہ بل کی اصل شکل جو آج سے 10برس پہلے نہایت اُجلی اُجلی صاف اور شفاف نیلے رنگ کی ہوئی تھی۔ چہرے پر پسینے سے پھیلے ہوئے میک اپ کے بد نما دھبوں کی طرح رنگ برنگی ہوگئی ہے۔ نجانے کون کون سے ٹیکس اور انکی قیمت ان رنگ برنگے خانوں میں درج ہوتی ہے جن کو پڑھ کر عوام کا اپنا رنگ اُڑ جاتا ہے پہلے عوام کو سارا دن رات بجلی میسر تھی اور بل بھی مناسب ہوتے تھے لہٰذا چوری کی وبا عام نہیں تھی۔
اب بجلی 12,12گھنٹے کی مساویانہ لوڈشیڈنگ کے سنہری اصول کے مطابق دستیاب ہوتی ہے اور بل ہے کہ ڈینگی بخار کی طرح بڑھتا ہی چلا جارہا ہے ۔نیچے آنے کی کوئی صورت نظر نہیںآرہی اب یا تو بخار جائے گا یا مریض جائے گا والی حالت ہوچکی ہے۔ تیر سے گھائل عوام کو اب شیر کے منہ کا ترنوالہ بننے سے کون روک سکتا ہے اگر بھوکے ننگے زخموں سے چور عوام شیر کے منہ سے بچ گئے تو پھر یہ آئندہ شاید بلے کے ہاتھوںپھینٹی کھانے پر مجبور ہوں گے اس لئے اب تو ہمارا مشورہ یہی ہے کہ ....
لاکھ آندھیاں چلیں لاکھ بجلیاں گریں
بے بسی کی یورشوں میں ” لالٹین“ جلائے جا
کیونکہ یہ قوم نہیں ہجوم مومنا ں ہے جسے جو چاہے اپنی مطلب براری کیلئے استعمال کرتا ہے اور ادھ موا کرکے چھوڑ دیتا ہے۔ خدا کرے کہ اب سپریم کورٹ جو بجلی کے بلوں میں اضافے کیخلاف کیسوں کی سماعت کر رہی ہے وہی کوئی راہ نکالے اور قانون کی طاقت سے حکومت ان غیر قانونی اقدامات سے روکے جو وہ بجلی بلوں میں جبراً کر کے عوام پر بجلیاں گرا دی ہے۔
٭....٭....٭....٭
خیبر پی کے حکومت نے 2ماہ میں طرز عمل نہ بدلا تو الگ ہوجائیں گے:قاضی آصف لقمان
اسے کہتے ہیں ” ساجھے کی ہنڈیا چوراہے میں پھوٹی“ ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن نہیں ہوئے صوبہ خیبر پی کے میں جماعت اسلامی کو تحریک انصاف کے ساتھ مل کر حکومت بنائے کہ کھینچا تانی شروع ہوگی۔ قاضی آصف لقمان نے وزیراعلیٰ کو آڑے ہاتھوں لیا ہے کہ وہ سرکاری ملازمین کی بھرتی میں میرٹ کی دھجیاں اڑا رہے ہیں اور نوشہر ہ سے سینکڑوں افراد کو بھرتی کیا گیا ہے۔ بقول مجید لاہوری....
سرخوان لقمہ اٹھانے پہ جھگڑا
وہ جھگڑا کے ہر دانے دانے پہ جھگڑا
لگتا ہے انہیں غصہ اس بات پر ہے کہ ان کو اور انکی جماعت کو اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کا موقع کیوں نہیں مل رہا۔ اب دیکھتے ہیں خٹک صاحب جوابی بیان کیا داغتے ہیں ویسے بھی یہ کہانی گھر گھر کی اندرون خانہ ہی رہے تو بہتر ہے کیونکہ اس طرح کی باتیں جگ ہنسائی کا باعث ہوتی ہیں اور اس حالت میں کہ جب دونوں حکمران اتحاد ی جماعتیں و انقلاب اور تبدیلی کا خواب دکھاکر برسر اقتدار آئیں ہوں اب اگر ایسی چھوٹی باتوں پر سر پٹھول کرتی پھریں گی تو پھر کسی کا منہ کون بند کرسکتا ہے۔اگر یادش بخیر وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے یاد دلایا کہ قبلہ ضیاءالحق کے دور میں تو یہی کام جماعت اسلامی نے بہت سی دیگر مذہبی جماعتوں کو پرے دھکیل کر بہتر انداز میں کیا تھا۔ اہم سرکاری دفاتر اور تعلیمی اداروں میں بے تحاشہ بھرتیاں ابھی تھا لوگوں کو نہیں بھولیں....تو پھر اس کا کیا جواب ہو گا قاضی لقمان کے پاس۔ اس لئے کہتے ہیں پہلے تولو پھر بولو....
٭....٭....٭....٭
شیخ رشید نے ٹی وی چینلز کے ٹاک شوز کی میزبانی کی پیشکش ٹھکرا دی !
پاکستانی سیاست میں شیخ رشید وہ سدا بہار اور بذلہ سنج ذات شریف ہیں جن کے جملوں کی کاٹ اور طنزیہ لہجہ پنجابی فلموں کے مشہور ولن مصطفی قریشی کی یاد دلاتا ہے۔ حقیقی زندگی میں کیا ہیں اس کا تو ہمیں علم نہیں البتہ ریما سے لیکر وینا ملک تک کئی نامور فلمی ستارے ان کے اوجِ فلک پر جگمگانے کیلئے بے تاب نظر آئے مگر انہوں نے کبھی اختر شماری کر کے اپنی راہ کھوٹی نہیں کی اور آج بھی وہ تنہا زندگی بسر کر رہے ہیں، ان کا اوڑھنا، بچھونا صرف سیاست ہے۔
مگر شیخ صاحب نے سُنی ان سُنی کر دی اور اپنی تنہائی کے دیرینہ رفیق سگار کے علاوہ کسی سے کوئی راہ و رسم نہیں رکھی۔ اب اگر وہ ٹیلی وژن پر آ جاتے تو مزہ ہی آ جاتا۔ سیاستدانوں کی کمزوری بھی تو رابطے میں رہنا ہوتی ہے مگر نجانے کیوں انہوں نے انکار کر دیا اگر وہ ٹی وی پر میزبان بن جاتے تو تصور کریں انکے تیکھے سوالات اور ”اندازِ گفتگو“ کی کس میں مجال ہوتی کہ تاب لائے اور بڑے بڑوں کے چھکے چھوٹ جاتے۔
٭....٭....٭....٭
پاکستانی وزیراعظم کو دورے کی خصوصی دعوت کیوں دی، بھارت امریکہ سے ناراض ہو گیا !
بھارت کا رویہ ہمارے ساتھ ہمیشہ سے پڑوسی والا کم اور ضدی پڑوسن والا زیادہ رہا ہے ہم اگر امریکہ جائیں تو ہمارے اس پڑوسی کو ناگہانی تکلیف شروع ہو جاتی ہے اور انجانے وسوسے آنے لگتے ہیں اور اس جلاپے میں اب بھارتی وزیراعظم دیہاتی مائی کی طرح دوڑے دوڑے روس چلے ہیں۔ ابھی چند روز پہلے کی بات ہے بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ نے اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت کے وقت امریکی صدر اوباما سے ملاقات کی، اس میں کیا ہُوا ہم نے اس بارے میں ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ اسکے باوجود جب اوباما نے وزیراعظم نواز شریف کی خصوصی طور پر عزت افزائی کرتے ہوئے انہیں امریکہ بُلا لیا ہے تو بھارت کو بھی صبر کرنا چاہئے۔ ہمارے وزیراعظم کو بھی چاہئے کہ وہ اپنی اس پڑوسن کا سارا کچا چٹھہ کھول کر دنیا کے سامنے رکھ دیں کیونکہ اسکی غلط پالیسیوں کے باعث ہی انتہا پسندی جنم لے رہی ہے اور برصغیر میں ایٹمی و روایتی ہتھیاروں کی دوڑ جاری ہے۔ جو تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق پاکستان کو کبھی استعمال کرنے پڑینگے۔ آخر ہم بقول قائداعظمؒ اپنی شہ رگ ہمیشہ کیلئے دشمن کے قبضہ میں تو نہیں سکتے۔