بہ نظر غور دیکھا جائے تو آج ووٹ کی پرچی غیر منظم عوام کا جذباتی فیصلہ دکھائی دیتی ہے اور الیکشن کا رائج موجودہ نظام اشرافیہ کے اشاروں پر ناچتی طوائف یعنی جمہوریت کی وہی شکل ہے جس کا ذکر نیچے کیا گیا ہے۔ اس نام نہاد جمہوریت کے ذریعے سٹیٹس کو کا بُت قائم رکھنے اور جمہور کی اُمنگوں کو دبانے کا اہتمام بڑے بلند بانگ آئینی اور قانونی انداز میں کیا جاتا ہے۔ یہ نظام کتنے سقراط اور بھٹو کھا چکا ہے کتنی نسلوں کو برباد کر چکا ہے اس عفریت کی پشت پر سپر پاور، مخصوص عالمی میڈیا، یہودیت اور مقامی شخصی آمریتوں کے لاتعداد ڈھنڈورچی موجود ہیں ایسے میں انقلاب کا نعرہ¿ مستانہ بیک وقت ماضی سے کہیں زیادہ حسین اور بھیانک ہو گیا ہے۔
باوفا فریفتہ بیوی کی نظر میں بیکار، ناکارہ، نکھٹو خاوند، ٹُند مُنڈ، چوڑا منہ، چپٹی ناک والا بھدا بدصورت دیکھنے میں اُجڈ دیہاتی سقراط! لیکن اس بے شبایت جذبات سے عاری پتھر کے اندر انسانیت کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر اور معصومیت کی گہری جھیل موجود تھی۔ جواں سال پرستاروں میں گِھرا، خیالوں میں کھویا فکر و دانش کا جوالا مُکھی یہ آوارہ منش ایتھنز کی گلیوں میں گھومتا پھرتا۔ ہم جلیسوں کے سوالات غور سے سُنتا اور ہنستے مسکراتے جواہر موتی بکھیرتا اشاروں کنایوں حرکات سکنات سے مزین جوابات سے سب کے چہروں پر آگہی کی بشاشت لاتا۔ اس کے پرستاروں کے ہجوم میں اشرافیہ کے نام نہاد جمہوریت پرست طبقے کی اولاد، اشرافیہ کے رویوں سے متنفر متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے پُرجوش نوجوان اور سقراط کی غربت کے ساتھی پسے ہوئے طبقے کے لوگ سبھی شامل تھے یہ سب ہی مستقبل کے عظیم عالم فلسفی معمار تھے اور ایک بات پر متفق تھے کہ معاشرے میں آقا و غلام کا تصور اور اونچ نیچ ختم ہونی چاہئے۔
آج کے دور کے نوجوان کی پریشان کن بحثوں کے تمام تر موضوعات سقراط اور اس کے شاگردوں کا مستقل مکالمہ تھا جو یہ سمجھتے تھے کہ تمام معاشرتی مسائل کا حل اجتماعی بحث اور وسیع البنیاد گفتگو میں ہے اور ایک دن وہ اپنے پرچار سے معاشرے کو سدھارنے میں کامیاب ہو جائیں گے آوارہ منش سقراط اپنے شاگردوں میں اپنی عقل و دانش کے سبب ہر دلعزیز تھا جو سب بیک زبان اسے ملک کا نابغہ¿ روزگار فلسفی اور روحانی رہنما گردانتے تھے۔ اس نے مادی پس منظر میں تاریخ میں پہلی بار انسانی تمدن کو توحید، خیر و شر، شرف انسانی، انصاف، وطنیت پرستی اور معاشرتی اخلاق کی مبہم اصطلاحوں کو قابل ادراک و عمل معانی دئیے۔ ان دنوں معاشرہ کثیر الاتعداد خداﺅں دیوتاﺅں کے زیر اثر تھا اور ہجوم کے ہیجانی عددی جذبات کے سہارے نام نہاد جمہوریت کا راگ الاپ رہا تھا اس جمہوریت کا انتظام و اہتمام براہ راست اشرافیہ کے گِنے چُنے لوگوں کے ہاتھ میں تھا۔ حکمرانی، انصاف اور امن و امان کا حصول چوراہے اور چوپال نما اسمبلی کے ذریعہ ممکن تھا جس کا انعقاد صرف اشرافیہ کی جیب میں پڑی کنجی سے ہوتا ہے۔ اگر سقراط پرانی ڈگر پر چلتا لکیر کا فقیر ہو جاتا تو اشرافیہ واہ واہ کرتی اور من پسند مسند پر بٹھا دیتی مگر اُس کے سامنے تو مرکزی سوال یہ تھا کہ عوام کی اجتماعی فلاح اور ریاست کی اخلاقی اساس کیونکر قابل عمل اور پائیدار بنائی جا سکتی ہے؟ اس کے نزدیک ریاست وہ ماں ہے جس کام حکم چلانے کے علاوہ رعایا کی مدد کرنا اور راہ نجات دکھانا بھی ہے۔ سقراط کے نزدیک لاعلمی حماقت اور گناہ قابل معافی خطا کا ہی دوسرا نام تھا۔ معاشرے کو بچانے اور مضبوط بنانے کا یہ نسخہ حکمرانوں کو ناگوار گزارا۔ سقراط کی باتوں نے اشرافیہ کی جڑیں ہلا دیں۔ اعلیٰ طبقے کی اولادیں جن میں افلاطون جیسا عظیم فلسفی بھی شامل تھا جوق در جوق اس کی پیروکاری میں آتے چلے گئے۔ سقراط نے ذہنی ہیجان کے ذریعہ فکری بغاوت پیدا کر دی مگر اشرافیہ نے عملی انقلاب کا راستے طے شدہ ہجوی خلفشار کے ذریعے سقراط پر اباﺅ اجداد کے مذہب روایتی دیوتاﺅں کی توہین اور جاری نام نہاد اعلیٰ اقدار سے غداری کا الزام عائد کر کے محرم راز کو مجرم وفا بنا دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وقت کا عظیم ترین فلسفی، جوان نسل کی امنگوں کی زندہ تصویر چوراہے کے کٹہرے میں لایا گیا اور اشرافیہ کے اشاروں پر ناچتی طوائف جس کو جمہوریت کا نام دیا گیا اسے سزائے موت سُنا دی گئی۔ 70 سالہ بوڑھا جواں فکر رہنما حق پر تھا اُس نے معافی کا آپشن حقارت سے دھتکار دیا اور نہ تو اپنی تعلیمات سے روگردانی کی نہ اپنے متمول شاگردوں کا خفیہ فرار کا منصوبہ قبول کیا بلکہ علی الاعلان اناالحق کہا اور زہر کا پیالہ پی لیا۔ آج کتنے سقراط اپنے ہاتھوں میں تعلیم و ہُنر کی اعلیٰ ترین ڈگریاں تھامے قافلہ جمہوریت کے ہاتھوں زہر پیالے پی رہے ہیں۔ یہ سوال --- آج کا سب سے اہم اور بڑا سوال ہے شاید حکمرانوں اور سیاستدانوں کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں!