شورش کاشمیری کی زندگی کے دو مشن

 تحریک آزادی کے مجاہد، اپنے عہد کے جلیل القدر صحافی، نامور شاعروادیب اور خطابت کی مملکت کے بے تاج بادشاہ شورش کاشمیری کو اس عالم فانی سے رخصت ہوئے 39 سال گزر گئے ہیں لیکن انکے یہ الفاظ آج بھی میرے کانوں میں گونج رہے ہیں کہ ”میری زندگی کے دو مشن تھے۔ ایک انگریزوں سے آزادی اور دوسرا عقیدہ ختم نبوت کا تحفظ۔ میری زندگی کا ایک عظیم مقصد 1947 میں حاصل ہو گیا تھا اور دوسرا نصب العین میں جب قرآن و سنت کی روشنی میں قادیانیوں کو ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں قومی اسمبلی نے غیر مسلم قرار دے دیا تھا۔“ تحریک آزادی اور تحریک ختم نبوت میں شورش کاشمیری کی ناقابل فراموش جدوجہد اور لازوال قربانیاں ہماری قومی تاریخ کا ایک روشن باب ہیں۔ شورش کاشمیری اس لحاظ سے ایک خوش قسمت ترین انسان تھے کہ جن عظیم مقاصد کیلئے انہوں نے انتہائی بے خوف سے جہاد کیا اور غیر معمولی جرات و بے باکی سے اپنے ہفت روزہ ”چٹان“ میں لکھا وہ عظیم مشن ان کی زندگی ہی میں پورا ہو گیا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ عشق رسالت مآب کا جذبہ صادق رکھنے والے شورش کاشمیری جب اس دنیا سے رخصت ہوئے تو لاہور میں ایک لاکھ کے قریب افراد ان کے جنازے میں شریک تھے۔ میں نے یہ منظر خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ شورش کاشمیری کے خاندان اور قریبی رشتہ داروں سے زیادہ ملک کے کونے کونے سے آنیوالے عام لوگ شورش کاشمیری کے جنازے میں دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے۔شورش کاشمیری کو رسول پاک سے محبت تھی۔ اسی محبت و عقیدت کے باعث وہ انگریزیوں کے خود کاشتہ فتنے قادیانیت سے شدید نفرت کرتے تھے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے شورش کاشمیری کو پیدا ہی حرمت رسول کے تحفظ کیلئے کیا تھا۔ شورش کاشمیری کی بے باک صحافت، ان کا تمام تر زور خطابت اور شاعری میں ان کی قادر الکلامی کا جوہر گویا انکے تمام اوصاف اور خوبیاں تحریک ختم نبوت کیلئے وقف تھیں۔ انہوں نے اس مقصد کیلئے باضابطہ طور پر ایک کمیٹی کی بنیاد رکھی تھی اور ملک بھر میں اس کی شاخیں قائم کی گئی تھیں۔ شورش کاشمیری نے صرف صحافت اور خطابت کے ذریعے ہی برطانوی سامراج کے پیدا کردہ فتنے کا محاسبہ نہیں کیا بلکہ انہوں نے کئی مرتبہ قیدوبند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔ 1974 میں تحریک ختم نبوت میں اگرچہ تمام مذہبی اور سیاسی جماعتوں نے بھرپور کردار ادا کیا تھا لیکن شورش کاشمیری کا جب ابھی 1974 کی تحریک کے آثار دور دور تک دکھائی نہیں دے رہے تھے ۔ ”عجمی اسرائیل“ اور ”اسلام کے غدار“ کے نام سے کتابچے لکھ کر اور ان کتابچوں کو لاکھوں کی تعداد میں مسلمانوں تک پہنچا کر دولت اسلامیہ کو لاحق خطرات سے مسلسل آگاہ کرتے رہے۔ شورش کاشمیری نے ”اقبال اور قادیانیت“ کے نام سے بھی ایک کتاب تالیف کی اور ترجمان حقیقت علامہ اقبال ؒ کے افکار کی روشنی میں مسلمان نوجوانوں کو مسئلہ ختم نبوت سمجھانے کی کوشش کی۔ شورش کاشمیری کا ایک ہی نقطہ نظر تھا کہ قادیانیوں نے عقیدہ ختم نبوت میں نقب لگا کر اسلام سے غداری کی ہے۔ اس لئے جھوٹے مدعی نبوت مرزا غلام احمد قادیانی کے پیروکاروں کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ قرآن اور احادیث کی واضح احکامات سے روگردانی کرتے ہوئے ختم نبوت کا انکار بھی کریں اور پھر اپنے مسلمان ہونے کا باطل دعوی بھی کریں۔ عہد ساز صحافی مجید نظامی بھی ”عجب آزاد مرد تھا“ کے عنوان سے اپنے مضمون میں یہ تجزیہ کیا تھا کہ ”خاتم النبین کے کروڑوں غلام یہ گواہی دیں گے کہ اپنی ہزار بشری کمزوریوں کے باوجود آغا شورش کاشمیری سرکار دو عالم کے حضور آج سرخرو کھڑے ہوں گے کیوں کہ انہوں نے ختم نبوت کا علم اس وقت بھی سربلند رکھا جب وہ اس میدان میں تنہا رہ گئے تھے۔“ مجید نظامی نے بجا طور پر یہ شہادت بھی دی ہے کہ شورش کاشمیری کا ماضی اگرچہ قوم پرست تھا لیکن قیام پاکستان کے بعد وہ ایک کٹر پاکستانی اور نظریہ پاکستان کے دل سے قائل تھے۔ علامہ اقبال ؒ سے شورش کاشمیری کی عقیدت مندی کا یہ عالم تھا کہ وہ علامہ اقبال ؒ کے افکارونظریات سے معمولی اختلاف کو بھی ناقابل معافی گستاخی شمار کرتے تھے۔ علامہ اقبال ؒ کے فدائی اور شیدائی ہونے کے علاوہ قائداعظم ؒ کا بھی شورش کاشمیری دل و جان سے احترام کرتے تھے اور تحریک پاکستان سے پہلے شورش کاشمیری کے جو بھی سیاسی نظریات تھے، قیام پاکستان کے بعد وہ قائداعظم ؒ کی سیاسی بصیرت کا کھلے دل سے اعتراف کرتے تھے۔ چنانچہ قیام پاکستان کے بعد شورش کاشمیری اور انکے پرانے سیاسی رفقا نے استحکام پاکستان اور دفاع پاکستان کیلئے اپنی زندگیاں وقف کر دیں۔ جب 1965ءمیں پاک بھارت جنگ ہوئی تو شورش کاشمیری نے اپنے قلم سے تلوار کا کام لیا۔ انہوں نے مسلسل اتنی زیادہ تعداد میں جنگی نظمیں لکھیں کہ 1965ءکی جنگ میں کہی گئی نظیموں اور جنگی ترانوں پر مشتمل شورش کاشمیری کی الگ ایک کتاب ہے۔
آخر میں شورش کاشمیری کی ایک اور نمایاں خوبی کا تذکرہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ شورش کاشمیری کا اپنا تعلق بنیادی طور پر ایک غریب خاندان سے تھا اس لئے وہ تمام عمر سیاسی جماعتوں کے غریب کارکنوں کو بڑی محبت کی نظر سے دیکھتے رہے۔ سرمایہ داروں، انگریزوں کے کاسہ لیسوں اور جاگیرداروں سے شورش کاشمیری کو سخت نفرت تھی۔ وہ اپنے ہفت روزہ ”چٹان“ میں غریب عوام کے استحصال کا ذمہ دار ظالمانہ جاگیرداری نظام کو قرار دیتے تھے شورش کاشمیری اکثر اپنی تحریروں اور تقاریر میں یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ کاش جاگیرداروں اور سرمایہ دار طبقے کو یہ سمجھ آ جائے کہ جو دولت انہوں نے جھوٹ، لوٹ کھسوٹ، استحصال اور اقتدار کی طاقت کے ذریعے جمع کی ہے۔ اس دولت کی ایک ایک پائی روز حشر ان کیلئے دوزخ کے انگارے ثابت ہو گی۔

ای پیپر دی نیشن