بالآخر بیک ڈور چینل نے کام دکھایا اور طاہر القادری کے دھرنوں کا ” ڈراپ سین ہو گیا“۔ عمران خان البتہ تا حال ” قائم و دائم“ ہیں۔ ہر چند ان دھرنوں نے عوامی بیداری کی لہر کو کافی حد تک اٹھائے رکھا اور عام آدمی کے سیاسی اور سماجی شعور کو بلند تر کر دیا تا ہم اس وقت طاہر القادری کے اس اقدام کو تجزیہ نگار شکست آمیز نظروں سے دیکھ رہے ہیں جس طرح جاوید ہاشمی کی ” بغاوت“ کو عوام نے تحسین آمیز نظروں سے نہیں دیکھا تھا بالکل اسی طرح طاہر القادری نے اپنی اور اپنے چاہنے والوں کی جدو جہد کو عین بیچ منجد ھار ادھورا چھوڑ دیا ہے۔ بے شک طاہر القادری کو اس فیصلے پر پہنچانے تک بیک ڈور چینل کا ہاتھ ہے تا ہم ساتھ ہی ساتھ عمران خان اور دیگر ساتھیوں کی بے ”امتناعی“ اور ” خود غرضی“ بھی اسکی وجہ بنی۔ خواتین اور بچوں سمیت ”مجمع“ کو اور اپنے آپ کو دو ماہ سے زائد عرصہ تک ایک محدود جگہ پر پابند رکھنا اپنی جگہ ” کارِ دارد“ ہے جبکہ عمران خان اور ان کا ہجوم تازہ دم ” ہونے کے بعد ایک مخصوص وقت کیلئے نمو پذیر ہوتے تھے۔ اگرچہ طاہر القادری کی اس حکمت عملی کو یار لوگ پسپائی پر محمول کر رہے ہیں لیکن ایک بات یقینی ہے کہ قادری صاحب کچھ ”معاملات “ طے کرنے کے بعد بھی اس بات پر رضا مند ہوئے ہوں گے۔ نوشتہ دیوار تو یہ ہے کہ اگلا سال وسط مدتی انتخابات کا سال ہے اور اگلے برس مڈ ٹرم الیکشن ہونا طے پا گئے ہیں۔ طاہر القادری بظاہر اپنے ” اہداف“ حاصل کرنے میں ناکام تصور کئے جائیں گے تا ہم ” درپردہ“ کام کرنے والی مدد گار قوتیں پوری طرح ” کامیاب “ رہی ہیں۔ ان کا مقصود حکومت کا ” بازو“ مروڑ کر کچھ ” باتیں اور امور“ منوانا تھا۔ جس میں وہ صد فیصد کامیاب رہے ہیں۔ لگ بھگ ایسا ہی ” معاملہ“ عمران کے ساتھ بھی چل رہا ہے۔ ”واقفان حال“کہتے ہیں شاید وہ بھی کسی ” مناسب“ وقت پر ” مثبت نتیجے“ تک پہنچ جائیں بے شک ” سودے بازی“ کی بہتر پوزیشن میں ہیں ایک تو انکے عقب میں باقاعدہ سیاسی طاقت ایستادہ ہے دوسرے ان کو شیخ رشید جیسے جہاں دیدہ اور گرم و سرد چیدہ سیاسی راہنما کی مشاورت کی ”سپورٹ“ حاصل ہے۔ سہولت تو طاہر القادری کو بھی حاصل تھی کہ وہ چودھری شجاعت حسین جیسے زیرک سیاست دان سے مشاورت کر لیتے تا ہم وہ اس موقع سے کما حقہ فائدہ نہیں اٹھا سکے اور ” نامساعد“ حالات اور سنگین ” معاملات“ کی اہمیت کو تسلبیم کرتے ہوئے ایک ایسا فیصلہ کر بیٹھے جو متنازعہ فیہ تو ہے تاہم حقائق کے قریب تر بھی ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ ماضی قریب میں ان دھرنوں ہی کی وجہ سے ایک وقت ایسا بھی آیا تھا کہ جب عمران اور قادری سودے بازی اور ” سمجھوتہ“ کرنے کی بہتر پوزیشن میں تھے اور ان کو وہ سب کچھ بھی حاصل ہو جاتا جو اب نا ممکن نظر آتا ہے لیکن دونوں رہنما اس موقع سے فائدہ نہ اٹھا سکے۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے تک حکمران جماعت اور اپوزیشن پارٹی کے کئی سرکردہ افراد اور اراکین اسمبلی ” بمعہ ساتھیوں“ کے عمران اور قادری کو جوائن کرنا چاہ رہے تھے تا ہم یہ نوبت بھی آتے آتے رہ گئی۔ اب عمران بھی بے شک دھرنا ختم کر دیں لیکن مستقبل کی پاکستانی سیاست میں ان دھرنوں کے ” اثرات“ تادیر محسوس کئے جا سکیں گے اور اگر اگلے برس واقعی مڈ ٹرم الیکشن و قوع پذیر ہوتے ہیں تو وہ بھی ان دھرنوں ہی کے مرھون منت سمجھے جائیں گے دریں اثناءعمران اور قادری کے جلسوں کے بر عکس پیپلز پارٹی کا کراچی میں منعقدہ جلسہ اور بلاول کی تقریر تو زیادہ متاثر کن نہیں تھی لیکن آصف زرداری کے خطاب کو تدبر اور ذہانت سے لبریز قرار دیا جا سکتا ہے۔ زرداری صاحب کے ذاتی کردار اور ”وجہ شہرت“ سے قطع نظر وہ بلا شبہ ایک ذہین اور مدبر سیاست دان کے طور پر تسلیم کئے جاتے ہیں۔ ادھر سندھ میں ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے حالیہ ” تنازعے“ کے پس منظر میں بھائی الطاف حسین سے امید کی جانی چاہئے کہ روز روز کی ” کل کل“ سے جان چھڑا کر وہ ایک ہی دفعہ دو ٹوک فیصلہ کر لیں ۔ نتیجہً مستقبل کی ملکی سیاست میں انہیں کہیں بہتر متبادل ” جگہ“ میسر آئے گی حرف آخر ملتان کے ضمنی الیکشن میں جاوید ہاشمی نے جس جرا¿ت اور حوصلے سے اپنی شکست کو تسلیم کیا ہے اس پر کئی کامیابیوں کو تج کیا جا سکتا ہے۔ ان کے غلط سیاسی فیصلے کے باوجود عوام کی ایک بڑی تعداد ان کے ذاتی کردار کی گرویدہ ہے اور ایک حقیقی سیاسی رہنما کی یہی اصل متاع قرار پائی ہے۔ طاہر القادری کے دھرنے کے ” ڈراپ سین“ کے بر عکس ہم کم از کم ملتان کے ضمنی الیکشن کے ڈراپ سین کو تو خوشگوار کہہ ہی سکتے ہیں کیونکہ کامیاب امیدوار نے بھی خوشگوار رد عمل کا اظہار کیا ہے۔
ڈراپ سین
Oct 23, 2014