لطاف مجاہد
دیوالی یاد یپالی، چراغوں سے عبارت ہے، خوشیوں کا یہ تہوار سندھ دیہی میں تو کسی امتیاز کے بغیر منایا جاتا ہے ہندو برادری کے گھروں میں دروازوں اور کھڑکیوں کے ساتھ طاقچے بنانے کا عام رواج ہے جن میں دیئے رکھ کر روشن کئے جاتے ہیں تو گھر جگمگا اٹھتا ہے ایسا ہی اہتمام دیواروں کی منڈیروں اور چھت کے کنگررﺅں پر ہوتا ہے، جھلمل کرتے چراغوں کی روشنی دیکھ کر مارگلہ کی پہاڑی یعنی دامن کوہ سے اسلام آباد یا پھر گڈھی بھٹ (پہاڑی ٹیلے) کی بلندی سے رات کے وقت مٹھی کے خوش نما شہر کی یاد تازہ ہو جاتی ہے سندھ میں آباد ہندو برادری کی تعداد لاکھوں میں ہے جام شورو، تھر، عمر کوٹ، جیکب آباد، شکار پور، کھوٹکی، کندھکوٹ، سانگڑا ضلاع میں تو ان کا خاصا اثرورسوخ ہے بلکہ آڑہت کا تمام کاروبار ہی ان کے ہاتھوں میں کہیں یہ مالک ہیں تو کہیں منشی اور اہم شخصیات کے کارندے۔
قیام پاکستان سے قبل بھی ہندوﺅں کی دو کمیونٹیاں بڑی معروف تھیں ایک عامل جن کے نام پر کراچی میں گرومندر سے حلقہ عامل کالونی ہے اور نوائے وقت کراچی کا دفتر بھی عامل کالونی کے پلاٹ 49 پر واقع ہے جو مزار قائداعظم کے مقابل ایم اے جناح روڈ پر واقع عامل برادری سرکار دربار سے وابستہ تھی اور تالپور، انگریز دور میں یہ افسر شاہی کے حقیقی کارندے تھے دوسرے تھے بھائی بندیہ کاروباری لوگ تھے پورے سندھ میں پھیلے ہوئے بھائی بند اس عہد کے آئی ایم ایف، ورلڈ بنک اور دیگر مالیاتی ادارے تھے ان کی تجارت کوٹھیاںسندھ سے باہر دور دراز کے ممالک میں واقع تھیں اور ان کی چھٹیوں پر لاکھوں کی ادائیگی ہوتی تھی اور ان کے بہی کھاتوں میں اس وقت کے لاکھوں کے اندراج معمولی بات تھا جو آج کرنسی کی گرتی ہوئی شرح سے موازنہ کریں تو اربوں روپے کے مساوی پڑتا ہے۔
بات دیوالی کی تھی اور پہنچی بھائی بندوں اور عاملوں تک جو سندھ کی معشیت اور معاشرت کے اہم ستون تھے سندھ پر انگریزوں کے قبضے یا غلبہ کا سبب بھی دیوان ناﺅں مل ہوت چند بنا تھا جو سندھ کی تاریخ میں میر جعفر اور میر صادق کی طرح غدار برتا جاتا ہے لیکن پیر علی محمد راشدی لکھتے ہیں کہ اگر وہ نہ ہوتا تو سندھ کے ہندو گدھے اور مسلمان گھوڑے یا اونٹ پر سفر کر رہے ہوتے یہ ساری ترقی جو بیراجوں، ریل گاڑی، ٹرکوں، بندرگاہ اور نہری نظام سے مشروط ہے سب اسی کی غداری کے بدولت ہی سندھ کو میسر آئی تھی۔
سندھ کی ہندو برادری کو جب اغوائ، ڈکیتیوں اور لوٹ مار کا سامنا کرنا پڑا تو یہاں سے بہت سے افراد نقل مکانی بھی کرگئے ان کی تعداد جنوری 2013ءمیں 3753، جنوری 2011ءمیں ایک ہزار 8 سو 54 تھی یہ بھی کہا جاتا ہے کہ قیام پاکستان کے وقت کراچی میں پارسی، ہندو یہودی اور عیسائی بڑی تعداد میں تھے جو اب انتہائی کم رہ گئے ہیں۔ کراچی کے قدیمی علاقے رنچھوڑ لائن کی یہودی عبادت گاہ صومعہ جیسے مقامی لوگ اسرائیل مسجد یا یہودیوں کی مسجد کہتے تھے ہر ایک شاپنگ پلازہ تیار تعمیر ہو چکا ہے اس برس اسرائیلی میں عیدالاضحیٰ اور یہودیوں کا تہوار ”یوم کپور“ ایک ہی روز آئے تھے جبکہ کئی اس قبل پاکستان میں عیسائیوں، مسلمانوں اور پاسیوں کے تہوار دیوالی کی مختلف توجیہات کی جاتی ہیں ایک ایساعقیدہ یہ بھی ہے کہ یہ ایسا تہوار ہے جو ہندوبرادری ہندی ماہ کارتک کی پندرہ تاریخ کو کارتک دیوتا کی یاد میں منایا جاتا ہے اس روز ہندو کمیونٹی کے افراد کسی دریا یا تالاب میں نہا کر نئے لباس پہنتے ہیں اور پوجا پاٹ کرتے ہیں اور رات کے وقت دیئے جلانے کا خصوصی اہتمام کرتے ہیں بعض کمزور عقیدہ لوگ اسی روز جوا بھی کھیلتے ہےں اور انکے خیال میں دیوالی کو جیتنے والے سارے سال دولت کی ریل پیل میں رہتے ہیں اور کامیابی قدم چومتی ہے کچھ دیگر کے خیال میں کرشن جی کے دور کے کاند کاسر کی موت کی خوشی میں جسے ستیہ بھاما نے مارا تھا جو کرشن جی کی شریک حیات تھی یہ تہوار خوشیوں سے عبارت ہے البتہ بعض افراد کی دانست میں رام چندر راجہ کے بن باس سے واپسی کا دن دیوالی تھا اس لئے دیئے یا دیپ جلا کر ان کا سواگت کیا جاتا ہے تو بہت سے اسے دولت کی دیوی لکشمی سے موسوم کرتے بنگال کے ہندو اس دن کو کالی دیوی سے جسے وہ کالی ماتا کہتے ہیں موسوم یا منسوب کرتے ہوئے اس کی پوجا کرتے ہیں اور قربانی دیتے ہیں ان کے خیال اس روز کالی دیوی نے شرکی تمام قوتوں کو زیر کیا تھا اسی طرح جنوبی ہند کے باشندے اس روز وشنوجی کی پوجا کرتے ہیں اور تصور کرتے ہیں وشنوجی نے اس دن بدی کی قوتوں کو مقابلے میں شکست دی کارتک دیوتا کا دن تصور کریں یا ستیہ بھاما، رام چندر اور کالی یا وشنو کی فتح، ہندوﺅں کے نزدیک یہ دن خوشی کا ہے اور اس مسرت کا اظہار دیئے جلا کر مٹھائی بانٹ کر اور خصوصی پوجا پاٹ کر کے کرتے ہیں سندھ کے طول و عرض میں پھیلے ہندو کمیونٹی کے افراد جو لاکھوں کی تعداد میں ہیں یہ اہتمام کرتے نظر آتے ہیں۔
پاکستان میں تو صرف ہندو برادری ہی اس دن کا اہتمام کرتی ہے لیکن بھارت سمیت بہت سے ممالک میں یہ دن بطور یوم مسرت تمام کمیونٹی کے افراد مناتے ہیں اور اس کی اصل مذہبی روح سے قطع نظر اور پوجا پاٹ سے ہٹ کر اب دیدہ زیب ملبوسات زیب تن کرنے، مٹھائی بانٹنے یا تحفے تحائف دیئے اور برقی قمقموں اور دیوں یا چراغوں سے گھروں کو سجانے کا بندوبست کیا جاتا ہے اور اسے روشنیوں کے ایسے تہوار سے تعبیر کرتے ہیں جس کو موسم خزاں میں منایا جاتا ہے اوریہ اس موسم کی اداسی کو زائل کرکے اس میں روشنیوں، خوشیوں اور مسرت کے رنگ بھر دیاتا ہے۔
ہندو کمیونٹی کے نند لعل لوہانہ کہتے ہیں یہ دن جہالت پر علم، تاریکی پر روشنی اور مایوسی پر امید کی فتح کا دن ہے اسے شریر خیر کی برتری کا یوم بھی کہا جاتا ہے اور پانج روز تک جاری رہنے والے تہوار کی آخری بڑی رات اماوس کی شب ہوتی ہے جس کے اندھیرے میں جگمگاتے چراغ آنکھوں کو بہت بھلے لگتے ہیں۔ اس شب تمام اہلخانہ خوبصورت لباس پہن کر پوجا پاٹ کے بعد آتش بازی کا مظاہرہ کر کے مٹھائی سے ایک دوسرے کی تواضح بھی کرتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ دیوالی کے پانچ ایام میں سے ابتدائی دو دن دھن تیرس اور ندا کا چترداس کے طور پر شیرا روز دویوالی اور آخری دو روز دیوالی پدا (میاں بیوی کے رشتے کے استحکام) اور بھائی دوج یا بھاﺅ بیج (یعنی بہن بھائی کے تعلق کو مضبوط کرنے) کے طور پر منانے کا اہتمام ہوتا ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ دسہرہ کے 18 روز بعد دھن تیرسی کا دن آتا ہے۔ دلچسپ امریہ ہے کہ جین مت اور سکھ برادریاں بھی اسے اپنے اپنے نام دے کر مناتی ہےں جین مت کے ماننے والے بھی مہا ویرا کو مکتی ملنے کا دن اور سکھ بندی چھوڑ دیواس کا یوم قرار دیتے ہیں۔ اس لاز بھارت، نیپال، سری لنکا، میانمار اور موریشش، گینیا، ٹریٹی ڈار، سرینام، ملائیشیا، سنگار اور فجی میں سرکاری طور پر تعطیل کی جاتی ہے گویا اسے حکومت سرپرستی میں منایا جاتا ہے۔ رامائن اور مہا بھارت میں اس کی بہت سے توجیہات پیش کی گئی ہیں لیکن ایک امرپر سب کا اتفاق ہے کہ دیوالی خوشیوں کا تہوار ہے جس میں مذہبی تقدس کے ساتھ ساتھ روایتی مسرتیں بھی شامل ہوچکی ہیں۔