سجادترین
28ستمبر کے تحر یک انصاف لاہور کے جلسہ کی دھمک نے بلاول بھٹو کو پارٹی کے جیا لوں سے معافی مانگنے پر مجبور کردیا ہے تحر ک انصاف کے لاہور کے جلسہ سے قبل و فا قی دارلحکو مت کے علاقہ ایف سکس کے ایک گھر میں پیپلزپارٹی پنجاب کے چھ اہم رہنماوں کا خصو صی اجلاس ہوا تھا اور طویل مشاورت کے بعد ان لوگوں نے پارٹی چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور28ستمبر کے تحر یک انصاف لاہور کے جلسہ کے موقع پر شمولیت کااعلان کرنا تھا اس اجلاس کی اطلاع جب پیپلز پارٹی کی قیادت کو ملی تو ان لو گوں کی تحریک انصاف میںشمولیت رو کنے کے لیے پارٹی قیا دت نے وکلاءتحر یک کے دوران دھرتی ہوگی ماں کی جیسی کے نعرے لگا نے والوں کو در میان میں ڈالا جس کے بعد یہ شمولیت کاعمل عا رضی طور پر رک گیاپارٹی قیادت کی جا نب سے کارکنوں سے معا فی ما نگنے کا اعلان پیپلزپارٹی کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پارٹی آج جس مقا م پر کھڑی ہے اس کی ذمہ داری کس پرعائد ہو تی ہے اور پارٹی کے پانچ سالہ اقتدار کے دوران غر یب کارکنوں کے ساتھ دو وزیراعظموں اور وزیروں کی فوج ظفر موج نے جو سلوک روا رکھا اسکاحساب کون لے گا وزیراعظم سید یو سف رضا گیلانی نے چن چن کر اپنے دوستوں کو اہم عہدوںپرلگا یاجو بعد میں سکینڈل بھی بنتے رہے ڈا کٹر عا صم کارکنوں کو گالیاںیتے رہے اور جوبھی بڑی ڈیل کرتے اس ڈیل کے بارے میں سر عام کہتے کہ یہ ڈیل فر یال تالپور کی ھدایت پر کی جارہی کارکنوں سوال پوچھتے ہیں کہ ڈا کٹرعاصم کی پا رٹی کے کیا قربا نیاں ہیں کیا ضیا الدین ہسپتال میں جو خد مات وہ سر انجام دیتے رہے ہیں کیاوہ سید ابرار علی رضوی ،خور شیدخان، شاہدہ جبیں، اور ان جیسے ہزاروں کارکنوں سے زیادہ تھیں رحمن ملک پانچ سال وزیر پیپلزپارٹی کے کارکنوں کا داخلہ ان کے دفتر میں بند تھا جبکہ ایم کیو ایم والوںکے لیے ان کے دفتر اور گھر کے دروازے 24گھنٹے کھلے رہتے تھے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام جو غر بیوںکے لیے شروع کیا گیاتھا اس سے پروگرام چلانے والے خود فیض یاب ہوتے رہے راجہ پرویزاشرف وزیراعظم بنے تو ان کے ساتھ پارٹی کارکنوں کی بجائے ان کے دو بھائی ہر جگہ پر نظر آتے رہے اوریوں محسوس ہو تا تھا جیسے یہ پیپلزپارٹی کی نہیںتین بھا ئیوں کی حکو مت ہو ڈا کٹر قیوم سومرو پانچ سال ایوان کے نا م جوکچھ کرتے رہے وہ بھی کارکنوں کے سامنے ہے پیپلزپارٹی کے پانچ سالہ اقتدار کے دوران جو لوگ اہم حکو متی عہدوں پر رہے ان کے اقتدار میں آنے اور اقتدار کے بعد وا لے ان کے اثا ثے اور اکاونٹس چیک کر لیے جاہیں تو دودھ کا دودھ اور پا نی کا پا نی ہو جائے گا پیپلزپارٹی چو نکہ ایک طو یل تیاری اور عشروں کی جدوجہد سے نہیں بنی تھی بلکہ ایک قیادت کے فقدان میں ابھر نے والی انقلابی تحریک میں تشکیل پائی تھی اس لیے آغاز سے اسکو وہ ٹھوس نظریاتی اورتنظیمی بنیادیں حاصل نہیں ہو سکی تھیں اس لیے پیپلزپارٹی کی موج کو ابھرتے دیکھ کر بہت سے حکمران طبقے کے سیا ست دان بھیاس پر براجمان ہوگئے پیپلزپارٹی میں ایسا کوئی نیٹ ورک نہیں ہے جواس مدا خلت کو فیصلہ کن انداز میں روک سکے جہا ں تک بلاول کے بیان کا تعلق ہے تو عین ممکن ہے کہ وہ ذوالفقار علی بھٹو کی نیشلائزیشن کو ہی ''ماضی کی غلطیاں قرار دے رہا ہو۔ اس ''غلطی کا اعتراف چند سال قبل یوسف رضا گیلانی نے اس وقت کیا تھا جب وہ پیپلز پارٹی حکومت کے وزیر اعظم تھا۔ جہاں پارٹی کا وزیراعظم پارٹی کے بنیادی منشور کو ببانگ دہل غلط قرار دے سکتا ہے وہاں بعید نہیں کہ چیئرمین بلاول صاحب پارٹی کارکنان کے نام پیغام کی آڑ میں امریکی سامراج، پاکستان کے حکمران طبقات اور ریاست سے عرض گزار ہوں کہ ''ایسی غلطی دوبارہ نہیں ہوگی۔ بلاول زرداری جس چیز کو بھی ماضی کی غلطی سمجھ رہا ہو لیکن ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے آخری ایام میں ایک غلطی کا اعتراف کھل کر، بڑے واضح انداز میں کیا تھا۔ یہ سوشلسٹ انقلاب کو ادھورا چھوڑ دینے کی غلطی تھی۔ جیل کی کال کوٹھری میں ذوالفقار علی بھٹو نے ماضی اور حال کا تجزیہ کرتے ہوئے اپنی آخری کتاب ''اگر مجھے قتل کیا گیا میں یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ ''میں اس آزمائش میں اس لئے مبتلا ہوا ہوں کہ میں نے دو متضاد طبقات کے درمیان آرزو مندانہ سمجھوتہ کروانے کی کوشش کی۔ فوجی شب خون کا سبق یہ ہے کہ مصالحت اور درمیانہ راستہ ایک یوٹوپیائی خواب ہے۔ طبقاتی جدوجہد ناقابل مصالحت ہے اور ایک طبقے کی دوسرے طبقے پر فتح پر ہی منتج ہوگی۔ وقتی مضمرات کچھ بھی ہوں اس جدوجہد میں ایک طبقہ ہی جیتے گا۔ یہ پتھر پر لکیر ہے۔بلاول کو نہ جانے آج کون سے نظریات یاد آگئے ہیں۔ نظریات کو تو تیس سال قبل ہی پارٹی قیادت نے ''پچھلی نشستوں پر دھکیل دیا تھا۔ نیشلائزیشن کی جگہ نج کاری کی پالیسی اپنائی گئی، ضیا الحق کی سیاسی باقیات کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر پارٹی پر مسلط کروایا گیانواز شریف کی سیاسی تنزلی کا تناظر سامنے رکھتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ بلاول کو ابھارنے اور استعمال کرنے کی تیاری کر رہی ہیں۔ بلاول کو آج ''نظریات یاد آئے ہیں، آنے والے دنوں میں عین ممکن ہے اس سے زیادہ ریڈیکل لفاظی کروائی جائے۔ محنت کش عوام پہلے ہی ماضی کے دھوکوں اور غداریوں سے گھائل ہیں۔ ایسے میں ایک نئی امید کے بننے اور ٹوٹنے سے مذہبی انتہا پسندی زیادہ خونریز طریقے سے سماج پر مسلط ہو گی اور حکمران طبقہ زیادہ وحشی ہو کر عوام کا معاشی قتل عام کرے گا۔ بلاول سے عوام کی امیدیں وابستہ کروانے والے ''سول سوسائٹی اور ''بائیں بازو کے خود ساختہ دانشور اس کھلواڑ میں حصہ دار ہوں گے۔ لیکن اس ملک کے محنت کشوں اور نوجوانوں نے ماضی کے تلخ تجربات سے بہت اسباق بھی سیکھے ہیں۔ اب کی بار انہیں جھانسا دینا اتنا آسان نہ ہوگا 18اکتوبر کے کرا چی جلسہ میں بلاول زرداری نے با قاعدہ سیا سی میدان میں اتر چکے۔بلاول بھٹو زرداری کے سیاسی سفر کے آغاز پر ہی پارٹی کے برزگ رہنما ایک پیج پر نظر نہیں آئے چودھری اعتزاز احسن نے ملتان کے ضمنی الیکشن میں پارٹی امیدوار کی شکت کی آڑ لے کر ذمہ داران کو معافی مانگنے اور 50 سال تک کے بزرگوں کو الگ کرکے بلاول کو اپنی ٹیم بنانے کی تجویز پیش کی جس سے سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے اتفاق نہیں کیا اور یہ م¶قف اختیار کیا کہ پیپلز پارٹی کے بوڑھے مخالفین پر بھاری ہیں ان باتوں سے ظاہر ہو رہا تھا کہ پارٹی کے بزرگ ایک دوسرے کی تجویز کی مخالفت کرتے ہیں جبکہ سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے ملتان کے ضمنی الیکشن اپنے امیدوار کی ناکامی کی وجوہات بیان کرنے کی بجائے پارٹی کی تمام تنظیم ختم کرکے نئی تنظیم سازی کی تجویز پیش کر دی سید یوسف رضا گیلانی کی اس تجویز سے یہ بات بالکل واضح ہوچکی کہ پیپلز پارٹی کی پنجاب میں موجود تنظیم حالات کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں رہی۔بلاول نے اپنے طوفانی خطاب میں تمام جماعتوں پر کھل کر تنقید کی مگر بلاول کی تنقید میں بدتمیزی کا پہلو نظر نہیں آرہا تھا بلاول بھٹو زرداری اپنے خطاب میں ضیاءالحق کی باقیات پر تنقید کرکے پارٹی کارکنوں کو چارج کرنے کی کوشش کرتے رہے۔سانحہ ماڈل ٹا¶ن پر وہی م¶قف اختیار کیا جو علامہ پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری کا ہے بلاول نے کشمیر بنے گا پاکستان کا نعرہ لگا کر کشمیری عوام کی ہمدردیاں بھی حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے ذوالفقار علی بھٹو کا خوب ذکر اور تمام مسائل کو بھٹو ازم کے ذریعے حل کرنے کا اعلان کیا مگر ذوالفقار علی بھٹو کے پہلے منشور بارے ایک لفظ نہیں کہا جو پارٹی کی بنیادی دستاویزات ہے بلاول بھٹو نے پارٹی کے کارکنوں کی شکایات دور کرنے کے لئے ان کو پارٹی کے یوم تاسیس پر بلاول ہا¶س لاہور میں آنے کی دعوت دیتے ہوئے یہ بھی یقین دہانی کروائی کہ اب پارٹی کو کارکنوں کی بنائی ہوئی پالیسی پر چلایا جائے گا اب پارٹی کے یوم تاسس کے موقع پر جو کام بلاول بھٹو زرداری کر رہے ہیں اگر یہی کا م اقتدار کے دوران ان کے والد کر لیتے تو پارٹی کا یہ حشر نہ ہو تا پیپلز پارٹی میں رحمن ملک ، ڈاکٹر عا صم، ڈا کٹر قیوم سومرو، ان جیسے درجنون دیگر لوگ جو پارٹی کے لیے پورس کے ہا تھی بن گئے ہیں اب پیپلز پارٹی کو پورس کے ہا تھیوں سے پاک کر ناہو گا۔