نجانے قادری صاحب کوکیسے خیال آگیا کہ وہ ایک سعی لاحاصل میں مصروف ہیں۔انہیں اپنی صلاحیتوں کا پہلے سے درست اندازہ ہونا چاہئے تھا۔ گزشتہ برس انہوں نے اپنے پیرو کاروں کوسخت سردی میں آزمایا اوراس بار سخت گرمی اور موسلا دھار بارشوںمیں، آخر وہ گوشت پوست کے انسان تھے، روبوٹ نہ تھے، اور قادری صاحب کی طرح بلٹ پروف اور ویدر پروف کنٹینر میں محو آرام نہ تھے، وہ سڑکوں پر پڑے تھے، کھلے پارکوں میں، فٹ پاتھوں پر، وہیں ان میں سے بعض نے بچے بھی جنے۔ یہ منظر تو بھارت کے بعض شہروںمیں دیکھنے کو ملتا ہے جہاںنسلوں کی نسلیں فٹ پاتھوں پر جنم لیتی ہیں اور وہیں دم توڑ دیتی ہیں۔ قادری کے پیرو کار بھارت کے باشندوں کی طرح کے بھکاری نہ تھے، وہ کھاتے پیتے لوگ تھے، وسائل سے مالا مال، جو اپنے اوپر بھی خرچ کر سکتے تھے ا ور اپنے لیڈر پر بھی دولت نچھاور کر سکتے تھے، پھر بھی انہیں فٹ پاتھوں کی بھینٹ چڑھا دیا گیا، دو ماہ سے سے زائد عرصے تک وہ قادری کے اشارہ ابرو کی پیروی کرتے رہے مگر تا بکے، آخر ان کی سکت جواب دے گئی اور وہ ایک ایک کرکے کھسکنے لگے اور جب قادری نے گنتی کی تو پتہ چلا کہ جن پہ تکیہ تھا، وہی پتے ہوا دینے لگے۔جیسے انسان کے قدموں کے نیچے سے زمین سرک جاتی ہے۔ قادری نے ایک سے ایک بڑھ کر نعرہ لگایا، زور بیانی کا مظاہرہ ، نت نئے نعرے ، مطالبے پر مطالبہ۔مگر ان کا کوئی اثر نہ ہوا۔
قادری صاحب جانتے تھے کہ پاکستان کی سرزمین میں ان کی کوئی جڑیں نہیں، وہ اس ملک کو چھوڑ کر جا چکے اور کینیڈا کے ہو کے رہ گئے، کئی برس تک انہیں مادر وطن کا خیال تک نہ آیا، وہ ملکوں ملکوں گھومتے ہیں، کینیڈا کا پاسپورٹ ان کے سامنے نت نئی دنیاﺅں کے دروازے کھول دیتا ہے۔ وہ ہر ملک میں تبلیغ کا فریضہ انجام دیتے ہیں اور ہر ملک سے چندہ اکٹھا کرتے ہیں،اس چندے سے کیا کرتے ہیں،اس کا علم کینیڈا کی حکومت کو ہو گا مگر وہ ہمیں کیوں بتائے گی۔ہمارے ہاں تو وہ دھرنے پر مال خرچ کرنے آتے ہیں۔
پچھلے سال بھی وہ آن وارد ہوئے، اسلام آباد میں دھرنا دے کر بیٹھ گئے، زرداری حکومت کے ،نہ جانے کیوںہاتھ پاﺅں پھول گئے کہ ا ن سے مذاکرات کے لئے اعلی سطحی وفد بھیج دیا، ویسے اس وفد نے دھرنے کے غبارے سے جلد ہی ہوا نکال دی، قادری نہ صرف اسلام آباد کے دھرنے سے غا ئب ہو گئے بلکہ ملک سے بھی چلے گئے۔اس کے بعد وہ ایک بھولی ہوئی کہانی تھے۔
پھرخبریں آئیں کہ وہ ایک کروڑ نمازیوں کی امامت کروائیں گے، میںنے اس پر تبصرہ کیا تھا کہ ویلے دی نماز تے کویلے دیاں ٹکراں، آپ کی گاڑی چھوٹ گئی تو چھوٹ گئی، آپ نے الیکشن میں حصہ نہیں لیا تو پھر اس کے بعد آپ کے لئے کوئی راہ عمل باقی نہیں رہتی۔بس دیواروں سے سر ٹکراتے رہیں، چیختے چلاتے رہیں، کوئی آپ کو پوچھتا تک نہیں۔پتہ نہیں کیوں اور کب قادری صاحب الیکشن کے عمل سے بدک گئے، حالانکہ وہ کئی بار الیکشن میں قسمت آزمائی کر چکے تھے اور محترمہ بے نظیر صاحبہ کے ساتھ اتحادی سیاست بھی کر چکے تھے، اب کے وہ الیکشن پر تین حرف بھیجنے لگے اور انقلاب ، انقلاب کی گردان کرنے لگے، انہوں نے شاید سوچا کہ بعض عرب اور افریقی ملکوں میں انقلاب کی بہار کے تیز رفتار جھونکے چل نکلے ہیں، لیبیا، تیونس،مصر اس انقلاب کی لپیٹ میں آ چکے ، اس لئے شاید پاکستان میں بھی داﺅ چل جائے۔ مگر وہ اپنے انقلاب کے لئے وہ غیر ملکی سپورٹ حاصل نہ کر سکے جو مذکورہ ملکوں میں اثر انداز ہوئی تھی، ان ملکوںمیں سی آئے اے نے براہ راست مداخلت کی تھی، امریکی اور یورپی فوجوں نے انقلابیوں کی پیٹھ ٹھونکی تھی۔ مگر یہ طاقتیں قادری کی پشت پرا س طرح سے کھل کر موجود نہ تھیں، اندر خانے حمایت کر بھی رہی ہوں تو اس کا خاص فائدہ نہیں تھا اور سی آئی اے اور نیٹو کو اچھی طرح علم تھا کہ پاکستان کوئی بنانا ری پبلک نہیں ہے،اس کے دفاع کے لئے الحمد للہ، دنیا کی ایک پیشہ ور اور مسلمہ مہارت سے لیس فوج موجود ہے ،اور یہ ایک ایٹمی طاقت بھی ہے، کسی ا یٹمی طاقت کوچشم زدن میں زیر وزبر کرنا ایک نا ممکن کام ہے۔بارہ برس سے بیرونی اشاروں پر دہشت گردوںنے پوری کوشش کر دیکھی ، انہیں ذرہ بھر کامیابی نہیں ملی، قادری صاحب عورتوں ، بچوں، بوڑھوں اور چند منچلے نوجوانوں کے ساتھ کیا تیر مار سکتے تھے۔
مجھے کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ قادری نے پاکستان کے اسٹیٹس کو، کی طاقتوں کے مہروں کا کردار ادا کیا اور استحصالی نظام کو مزید پکا کر دیا۔اگر عوام کو اپنی قسمت بدلنے کی کوئی امید تھی بھی تو قادری نے اسے خس و خاشاک میں ملا دیا، میں اسی لئے کہتا ہوں کہ قادری نے حکومتی اسکرپٹ پر عمل درآمد کیا۔آج نواز شریف واقعی ایک شہنشاہ بن چکا ہے ا ور اسے چیلنج کرنے کے لئے ملک کے اندر کوئی طاقت موجود نہیں۔پارلیمنٹ کی ساری قوتیں اس کے دائیں بائیں کھڑی ہیں۔ قادری کے دھرنے کی وجہ سے نواز شریف کے طرز حکومت میں کوئی بھی تبدیلی نہیں آئی، حمزہ شہباز پہلے کی طرح پنجاب کا چیف منسٹر ہے، مریم صفدر کی تحویل میں قوم کا ایک سو ارب کا سرمایہ ہے ، شہباز شریف وزیر اعظم کے اختیارات استعمال کر رہا ہے۔اور ان کے خاندان کے لوگ پہلے کی طرح حکومتی مناصب سے چمٹے ہوئے ہیں ، ماڈل ٹاﺅن سانحے میں درجن بھر افراد جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے، یہ خون خاک نشیناں تھا ، رزق خاک ہوا۔راناثنااللہ یا توقیرشاہ کا کیا بگڑا۔ وہ حکومتی معاملات میں پہلے کی طرح دخیل ہیں۔
پاکستان میں حکومت کی تبدیلی کے لئے آئین میں ایک طریقہ درج ہے، اس طریقے کو سابق عدلیہ نے بائی پاس کیا اور بقول یوسف رضا گیلانی اٹھاون ٹو بی کو زندہ کر کے اس بےچارے کا جھٹکا کر دیا۔زرداری کو بھی کونے سے لگائے رکھا۔آج کی عدلیہ بھی اس موڈ میںنہیں ہے، سابق دور میںمیڈیابھی حکومت کے خون کا پیاسا تھا، اسے جمہوری نظام سے کوئی عشق وشق نہیں تھا،آج یہی میڈیا جمہوریت کا رکھوالا بن بیٹھاہے، وہ وزیر اعظم پر کوئی آنچ نہیں آنے دیتا،اسے ان طعنوں کی پروا بھی نہیں کہ اس نے حکومت سے کروڑوں کھا لئے۔
پچھلی مرتبہ قادری صاحب نے لمبا مال میڈیا کو لگایا تھا، اس قدر پبلسٹی جیسے کوئی قیامت کھڑی کر دے گا، بہر حال میڈیا نے حق نمک ادا کیا۔اس مرتبہ قادری نے میڈیا پر پیسہ خرچ نہیںکیا اور وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ پاکستان میں مفت کام تو نہیں ہو سکتا۔
بد قسمتی پر آخری مہر چودھری برادران نے لگائی۔آج تک وہ جس کے ساتھ کھڑے ہوئے،اسے قبر تک پہنچا کے دم لیا۔ قادری خدا کا شکر ادا کریں کہ زندہ سلامت دھرنے سے واپس آ نے میں کامیاب ہوگئے ہیںورنہ وہ تو کفن لے کے گئے تھے، قبریں کھود لی گئی تھیں اور قادری نے خود بھی کہا تھا کہ جو دھرنے کو چھوڑ کر واپسی کی راہ لے،ا سے شہید کر دیا جائے۔یہ بھی بدقسمتی ہے کہ قادری کو شہادت کا مرتبہ نہیںمل سکا۔بگتی اور لال مسجد کے مولانا غازی کو چودھریوں نے شہادت کے مرتبے پر سرفراز کر کے دم لیا تھا۔چلئے، چودھریوں کا شکریہ کہ انہوں نے ایک عالم دین پر ترس کھایا۔
اب قادری قوم پر رحم کھائیں، اس کے اعصاب کو انہوں نے خوب آزما لیا، اب بس کریں ، واپسی کی ٹکٹ خریدیں اور کینیڈا کی سیدھی فلائٹ پکڑیں، ان کی بے حد مہربانی۔
قادری کے پیروکاروں پر رحم آتا ہے
Oct 23, 2014