اِس تحریر کا عنوان فارسی کے جس مصرع سے مستعار ہے وہ مشرقِ وسطیٰ میں خاندانی بادشاہتوں کی امریکہ کی قیادت میں داعش کیخلاف جاری جنگ و جدل پر بخوبی صادق آتا ہے- داعش (دولتِ اسلامیہ عراق و شام) اور متعدد دوسرے ناموںسے سرگرمِ عمل غارت گر گروہوں کا سرچشمۂ فیضان القاعدہ ہے- افغانستان سے رُوس کی پسپائی کے بعد القاعدہ اور اُس کی ذیلی تنظیموں نے مشرقِ وسطیٰ میں قائم خاندانی بادشاہتوں کو ختم کر کے اپنی اپنی تفہیم و تعبیر کیمطابق اسلامی خلافت کے قیام کو اپنا اوّلیں مقصد قرار دے دیا ہے- اپنے سیاسی نظام کے نقادوں سے خاندانی بادشاہت مذاکرات کی بجائے تعزیرات سے کام لینے کی خوگر چلی آ رہی ہے- ابھی کل کی بات ہے کہ ایک نامور سعودی عالمِ دین ،نمرالنمرکو حکومتِ وقت کی مخالفت کرنے کی پاداش میں موت کی سزا سُنادی گئی ہے- حکومتوں کے اِس سفّاک طرزِ عمل کے ردِعمل میں حکومت مخالف قوتیں بھی وحشت و بربریت کے ہتھیار استعمال کرنے لگتی ہیں-اوّل اوّل القاعدہ کے اِس طرزِ عمل کی سرپرستی خود اِن خاندانی بادشاہتوں اور اِنکے مغربی حلیفوںنے روا رکھی تھی- یہ بُت انہی قوتوں نے تراشے ، پھر اِنکی پرستش کی اور آج بالآخر انہیںتوڑنے کا مرحلہ آ پہنچا-امریکہ کے ایک سابق عسکری ترجمان Andrew Thompsonاور یونیورسٹی آف ٹیکسس کے پروفیسر Jereni Suri نے اپنے ایک حالیہ مشترکہ مضمون بعنوان How America helped ISIS میں داعش کے جنم اور اِسکی مسلسل نشوونما میں امریکی سرپرستی کے ثبوت پیش کیے ہیں- صرف عراق کی سرکاری آب و ہوا میںاِنکے پنپنے اور پروان چڑھنے کے مختلف مراحل کا ذکر کرتے ہوئے مصنفین نے لکھا ہے کہ عراق کے قید خانوں میں اسیر دہشت گردوں کی تعلیم و تربیت کا خاص اہتمام کیا گیا تھا اور یوں :
’’قید خانے عملاً دہشت گردی کی یونیورسٹیاں بن گئے تھے- یہاں سینکڑوں دہشت گرد پروفیسر تھے، یہاں کے قیدی اُنکے طالب علم تھے اور جیل کے حکام اُنکے محافظ و مددگار- دہشت گردی کے اِن اساتذہ کو ہزاروں قیدیوںمیں چار برس تک اپنا نیٹ ورک مضبوط کرنے ، پھیلانے اور اسلام کی اپنی دہشت پسند تعبیر عام کرنے کی سہولتیں میسر تھیں- طالبان امیر قید خانوں کی ساری آبادی کواِس حد تک کنٹرول کرتے رہے کہ اُنکے زیرِ اثر قیدیوں نے ٹیلی ویژن دیکھنا ، پنگ پانگ کھیلنا تک خلافِ شرع قراردے دیا تھا- اعتدال پسند قیدیوں کو انتہا پسند قیدی مارتے پیٹتے رہتے تھے- جب اِن پٹنے وا لے قیدیوں میں سے کوئی صدائے احتجاج بلند کرتا تو جیل حکام سے سزا پاتا- ‘‘ (نیویارک ٹائمز ، 12 اکتوبر 2014ئ)
اِن امریکی پروفیسروں نے مشرقِ وسطیٰ میں تشدد پسندی اور دہشت گردی کی روک تھام کی امریکی پالیسی کو ناکام قراردیتے ہوئے نئی حکمتِ عملی وضع کرنے کی ضرورت کا احساس دلایا ہے- لندن کے جریدہ القدس العربی کے مدیر اعلیٰ عبدالباری عتوان نے اپنی کتاب بعنوان 'The Secret History of al-Qa'ida' میں بھی القاعدہ اور اُس کی نِت نئی شاخوں کو قوت کے بل پر کچلنے کی پالیسی کے مقدر میں ناکامی ہی دیکھی اور دکھائی ہے- صرف اندھی طاقت کی بجائے روشن عقلی استدلال ہی سے اصلاحِ احوال کی کوئی راہ ایجاد کی جا سکتی ہے مگر اِسکا کیا کیا جائے کہ پُرامن مذاکرات کی یہ راہ خاندانی بادشاہت کی بجائے اسلامی جمہوریت کو جاتی ہے- اُردن کے شاہ حسین مرحوم کے چھوٹے بھائی اور معروف دانشور حسن بن طلال نے اپنے تازہ ترین مضمون بعنوان ’’ ایک لازوال پیغام‘‘ میں کیا خوب لکھا ہے کہ:
’’میں جس پیغام اور اصول کا ذکر کرنا چاہتا ہوں وہ ہماری قدیم روایت ’’شوریٰ‘‘ہے-یہ گفتگو اور مکالمے کا ایسا ہُنر ہے جس میں ہر انسان کی عزت و وقار کو ملحوظ رکھا جاتا ہے اور یہ ہمارے خطے کے تمام مذاہب کی مشترکہ میراث ہے- قرآن حکیم میں حکمران اور رعایا کے مابین تعلق کے ضمن میں شوریٰ کی اہمیت کو واضح کیا گیا ہے - عید قربان کا موقع ہمیں عظمت و دانائی کا راستہ اختیار کرنے کی دعوت دیتا ہے- ہمیں اپنے بزرگوں کی پیروی کرتے ہوئے تنوع اور کثرت کا احترام کرنا چاہیے- ایک دوسرے کا احترام ملحوظ رکھنا اور مشترکہ نکات پرمتحد ہو جانا چاہیے- دوسری صورت میں شر کی قوتیں ہمارے ملکوں پر قابض ہو جائینگی- آئیے ہم اپنے خالق کے مخلص بندے بن جائیں- ایک بار پھر شوریٰ کا نظام اپنا لیں، ایسا نظام جس میں سب کی رائے کا احترام کیا جاتا ہے اور فیصلہ سازی میں کسی ایک شخص ، مذہب یا فرقے کی اجارہ داری قائم نہیں ہونے دی جاتی- ‘‘(روزنامہ دُنیا، 19 اکتوبر2014 ئ)
جہاں تک امریکہ کی قیادت میں داعش کیخلاف جنگ میں مصروف حکمرانوں کا تعلق ہے شہزادہ حسن بن طلال کا یہ مشورہ سُنا ان سُنا کردیا گیا ہے- عرب حکمران طبقے کا یہ طرزِ فکر و عمل حرمین شریفین میں امامِ کعبہ کے خطبۂ حج کی یاد تازہ کرتا ہے- جس وقت شہزادہ حسن نے دُنیائے اسلام کو شوریٰ کا لازوال پیغام سُننے کا مشورہ دیا ہے عین اُس وقت امامِ کعبہ نے اسلام کے مقدس نام پر قتل و غارت کا بازار گرم کرنے والوں کو الخوارج کا نام دیا ہے- اسلامی تاریخ میں یہ اسمِ صفت پہلے پہل جنگِ صفین کے بعد کی اُس صورتِ حال میں سامنے آیا تھا جب چوتھے خلیفۂ راشد کے بعد خلافت ملوکیت کی راہوں پر گامزن ہو گئی تھی-
سید ابوالاعلیٰ مودودی نے اپنی کتاب ’’خلافت و ملوکیت ‘‘میں اِس دور کے سیاسی اور اخلاقی زوال کی درد انگیز تصویریں پیش کی ہیں- اُنھوں نے بتایا ہے کہ الخوارج میں سے جب کسی کو گرفتار کر کے لایا جاتا تھااور دربار میں اُس سے اُسکے ’’جرم ‘‘کا سبب پوچھا جاتا تھا تو جواب میں اُس کا استدلال اس قدر سحر انگیز ہوتا تھا کہ سامعین اُس کے ہمنوا بننے لگتے تھے-اِس صورتِ حال سے بچنے کی خاطر گرفتار شدگان کو کچھ پوچھے بغیر ہی تہِ تیغ کر دیا جاتا تھا- علامہ اقبال نے سن انیس سو دس میں Political Thought in Islam کے عنوان سےHindustan Review میں ایک مقالہ شائع کیا تھا-اِس مقالے کے آخری حصے The Khawarij---Republicanism میںالخوارج کے نظریہ و عمل پر روشنی ڈالی گئی ہے- انھوں نے الخوارج کے چوبیس گروہوں کا ذکر کیا ہے- اِن گروہوں میں آئین پسند بھی ہیں اور شورش پسند بھی-جہاں تک آئین پسند خوارج کا تعلق ہے وہ خلیفۂ وقت کا انتخاب ضروری سمجھتے ہیںاورخلیفہ کو کسی خاص خاندان یاقبیلے کی بجائے تمام خاندانوںاور قبیلوں میں سے ایک منتخب رہنما دیکھنا چاہتے ہیں-وہ ایک خاتون یا ایک غلام کو بھی خلیفۂ وقت منتخب ہونے کا حق دیتے ہیں- جب بھی اور جہاں بھی اِن کا بس چلا انھوں نے معاشرے کے نچلے طبقے سے ہی خلیفۂ وقت کا انتخاب کیا-
علامہ اقبال نے اپنی اِس تحریر میں اِس حقیقت کو بھی بے نقاب کیا ہے کہ حکمرانوں نے عقل و استدلال کی بجائے قوت اور دہشت سے اِن کا مقابلہ کرنے کی حکمت عملی اپنائے رکھی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ شورش پسندی بھی الخوارج کے متعدد گروہوں کا مسلک بن کر رہ گئی- آج دُنیائے اسلام اسی شورش پسندی اور دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے- اِس سے نجات شوریٰ کے نظام کے حرف و معنی کو صدقِ دل سے اپنا لینے میں ہے-عرب حکمران طبقے کے دانشور شہزادہ حسن بن طلال نے بھی اِس راہِ نجات کوصدقِ دل سے اپنانے کی اپیل کی ہے-اللہ کرے عرب حکمرانوں میں یہ بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہو!