طاہرالقادری کا اسلام آباد دھرنا ختم کرنے کا اعلان اور وزیراعظم کا رواداری کی سیاست کا عندیہ…عوام کو مطمئن کئے بغیر حکومت خود کو محفوظ نہ سمجھے

ادارہ منہاج القرآن اور عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے شاہراہ دستور اسلام آباد پر پارلیمنٹ ہائوس کے سامنے سوا دو ماہ سے جاری دھرنا منگل کی رات ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ انہوں نے دھرنے کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ دھرنا ختم کرنے کیلئے حکومت سے کچھ طے نہیں ہوا۔ ہم اسلام آباد میں دھرنا ختم کر رہے ہیں مگر ملک بھر میں احتجاجی جلسوں کا سلسلہ جاری رہے گا اور قومی حکومت کے قیام کیلئے جدوجہد جاری رکھی جائیگی جبکہ پی اے ٹی کا انقلاب کا ایجنڈا بھی قائم رہے گا۔ انہوں نے پورے ملک میں دھرنوں کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اب ہر شہر میں دو دن کے دھرنے ہونگے جس کا آغاز آج 23 اکتوبر سے ایبٹ آباد سے ہوگا جہاں جلسہ عام منعقد ہوگا اور پھر دھرنا دیا جائیگا۔ انہوں نے بھکر‘ سیالکوٹ اور کراچی میں دھرنوں کے شیڈول کا بھی اعلان کیا اور کہا کہ ہم ہر شہر میں جناح ازم کا پیغام پھیلائیں گے۔ انہوں نے دھرنا ختم کرنے کا اعلان کرنے کے بعد کارکنوں سے الوداعی ملاقات کی اور خواتین کارکنوں کے سروں پر ہاتھ رکھا جس کے بعد انہوں نے دعا کرائی اور گاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہو گئے۔
علامہ طاہرالقادری نے اگرچہ شدومد کے ساتھ یہ اعلان کیا کہ اگر انہوں نے دھرنے کے حوالے سے اسٹیبلشمنٹ سے ایک پیسہ بھی لیا ہو تو انہیں پھانسی چڑھا دیا جائے۔ انہوں نے یہ بھی باور کرایا کہ حکومت سے ڈیل کی باتیں درست نہیں تاہم سانحہ ماڈل ٹائون کے شہداء کے لواحقین کو دیت کی ادائیگی کے حوالے سے ڈاکٹر طاہرالقادری کے حکومت سے معاملات طے پانے کی باتیں گزشتہ ایک ہفتے سے زیر گردش تھیں چنانچہ اس دوران ہی ڈاکٹر طاہرالقادری کے دھرنا ختم کرنے کے اعلان اور پھر وزیراعظم میاں نوازشریف نے عوامی تحریک کے گرفتار کارکنوں کی رہائی‘ ان کیخلاف درج مقدمات کے خاتمہ کا عندیہ دیکر اور مسلم لیگ (ن) کے عہدیداروں اور وزراء کو عوامی تحریک کیخلاف کسی قسم کی بیان بازی سے روک کر ڈاکٹر طاہرالقادری کے ساتھ خیرسگالی کے جس جذبے کا اظہار کیا‘ اس سے بادی النظر میں دھرنا ختم کرنے کے حوالے سے حکومت کے ساتھ کسی ڈیل کا ہی عندیہ ملتا ہے۔ حکومتی ذرائع کے مطابق حکومت کو زیادہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے دھرنا سے ہی پریشانی لاحق تھی جو سسٹم کی اکھاڑ پچھاڑ کا ایجنڈا لے کر پارلیمنٹ ہائوس کے سامنے دھرنے پر بیٹھے تھے جبکہ عمران خان کے دھرنے کو بھی ڈاکٹر طاہرالقادری کے دھرنے کے شرکاء کی ثابت قدمی کے باعث تقویت حاصل ہوتی رہی اس لئے حکومتی حلقوں کا یہی خیال تھا کہ کسی طریقے سے ڈاکٹر طاہرالقادری کا دھرنا ختم کرا دیا جائے تو پھر عمران خان کا دھرنا خود ہی غیرمؤثر ہوجائیگا۔ اسی تناظر میں ڈاکٹر طاہرالقادری کے دھرنا ختم کرنے کے اعلان کے باعث میاں نوازشریف نے تحریک انصاف کے معاملہ میں بھی جارحانہ اور مزاحمتی پالیسی سے رجوع کرلیا ہے اور تحریک انصاف کے وزیراعلیٰ خیبر پی کے پرویز خٹک کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک مؤخر کرادی ہے حالانکہ حکومتی حلیف مولانا فضل الرحمان خیبر پی کے اسمبلی کے ارکان کی پوری فہرست لے کر گزشتہ روز وزیراعظم کے پاس آئے تھے اور باور کرایا تھا کہ ہمارے پاس خیبر پی کے میں حکومت کی تشکیل کیلئے واضح عددی اکثریت موجود ہے۔ میاں نوازشریف کا وزیراعلیٰ خیبر پی کے کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک پر کارروائی کیلئے متفق نہ ہونا جہاں انکی جانب سے سیاست میں رواداری کو فروغ دینے کا عندیہ ہے‘ وہیں یہ پیغام بھی ہے کہ اب اپوزیشن کی سیاست میں عمران خان کی کوئی حیثیت نہیں رہی اور وہ غیرمؤثر ہو چکے ہیں اس لئے انکی خیبر پی کے حکومت ختم کرکے انکی جانب سے سیاسی محاذ آرائی کا نیا دروازہ کھلوانے کی کیا ضرورت ہے۔
ڈاکٹر طاہرالقادری نے کس پس منظر اور کن حالات میں اسلام آباد کا دھرنا ختم کیا‘ اس بارے میں تو مورخ ہی فیصلہ کریگا تاہم انکی حکومت مخالف محاذآرائی کی تحریک سسٹم کی اکھاڑ پچھاڑ کے ایجنڈے سے ملک کو کتنا نقصان پہنچا ہے‘ قوم ان سے اس کا حساب مانگنے میں حق بجانب ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کینیڈین شہریت رکھنے کے باوجود انقلاب کے جس ایجنڈے کے تحت دسمبر 2012ء میں پاکستان واپس آئے اور کنٹینر سیاست کا آغاز کرتے ہوئے پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں اسلام آباد پر دھاوا بولا اور پھر وزراء کے ساتھ ایک معاہدے کی صورت میں مفاہمت کرکے دھرنے کو سمیٹتے ہوئے کینیڈا واپس لوٹ گئے اس سے انکی سیاست کے حوالے سے یہی تاثر راسخ ہوا کہ وہ ملک اور عوام کی خدمت اور کسی حقیقی تبدیلی کے نہیں بلکہ محض خود کو نمایاں رکھنے اور اپنی شہرت کیلئے سیاسی میدان میں کودے ہیں۔ اس تاثر کی بنیاد پر ہی سیاسی حلقوں کا یہ خیال تھا کہ ڈاکٹر طاہرالقادری اس ایجنڈے کے تحت مسلم لیگ (ن) کی حکمرانی کو چیلنج کرتے ہوئے دوبارہ ملک واپس آرہے ہیںتو چند روز کی شوبازی کے بعد پہلے ہی کی طرح انکی دھرنا سیاست پھر ٹھس ہو جائیگی۔ اگر حکومتی بے تدبیری کے نتیجہ میں ڈاکٹر طاہرالقادری کی آمد سے قبل سانحہ ماڈل ٹائون رونما نہ ہوا ہوتا تو انکے واپس آنے کے بعد حکومت کیلئے انکے چند روز کے شورشرابا پر قابو پانا اور سابق دور حکومت جیسے کسی معاہدے پر متفق کرنا آسان ہوتا تاہم سانحہ ماڈل ٹائون نے ڈاکٹر طاہرالقادری ہی نہیں‘ عمران خان کی حکومت مخالف سیاست میں بھی جان ڈال دی جس سے نوازشریف کی حکومت سے خلاصی پانے کے خواہش مند اور جمہوریت مخالف حلقوں کو بھی ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان کے ذریعے اپنے مقاصد کی تکمیل کا موقع حاصل ہو گیا۔ اس حکومت مخالف تحریک میں متذکرہ حلقوں کے کردار کا عندیہ خود عمران خان نے امپائر کی انگلی اٹھنے کا اشارہ کرکے دیا جس کے بعد تحریک انصاف کے صدر مخدوم جاوید ہاشمی نے تحریک کے پس پردہ مقاصد کو بے نقاب کرکے بھانڈہ ہی پھوڑ دیا۔ چنانچہ اسی تناظر میں پارلیمنٹ میں اپوزیشن پیپلزپارٹی سمیت تمام جمہوری عناصر حکومت سے اختلافی نکتہ نظر رکھنے کے باوجود سسٹم کو بچانے کے نام پر حکومت کے ساتھ ایک پلیٹ فارم اکٹھے ہوئے‘ اسکے باوجود دھرنوں کی سیاست ختم نہ کرائی جا سکی جس سے دھرنوں کی سیاست کے پیچھے کارفرما قوتوں کے مقاصد طشت ازبام ہونے میں کوئی کسر نہ رہی جبکہ دھرنا سیاست میں استعمال ہونیوالے پی اے ٹی اور پی ٹی آئی کے کارکن اپنے قائدین کے انقلاب اور نئے پاکستان کے ایجنڈے میں اپنے تئیں اخلاص کی جھلک پا کر ہی اس مزاحمتی تحریک کا حصہ بنے تھے جس میں یقیناً انہیں اپنے کاروبار اور روزگار کی قربانیاں دینا پڑیں اور اپنے خاندانوں کی اقتصادی مشکلات میں اضافہ کرنا پڑا۔
ڈاکٹر طاہرالقادری نے اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ شروع کرتے وقت اعلان کیا تھا کہ وہ انقلاب لائے بغیر وہاں سے واپس نہیں آئینگے۔ انہوں نے ساتھ ہی اپنے کارکنوں کو مخاطب کرتے ہوئے یہ بھی اعلان کیا کہ اگر وہ اس مقصد کے حصول کے بغیر واپس آئے تو انہیں شہید کردیا جائے۔ ان کا تقاضا جمہوری نظام کے خاتمہ‘ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب کے استعفوں اور سانحہ ماڈل ٹائون کی ایف آئی آر میں انہیں اور دوسرے حکومتی عہدیداروں کو نامزد کرانے کا تھا۔ اسی طرح عمران خان نے 14 اگست کو اسلام آباد کی جانب آزادی مارچ کا آغاز کرتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ وزیراعظم کا استعفیٰ لئے بغیر واپس نہیں آئینگے۔ اب ڈاکٹر طاہرالقادری تو اپنے اعلانات و عزائم کو ادھورا چھوڑ کر اسلام آباد کا دھرنا ختم کرنے کا اعلان کر چکے ہیں جبکہ عمران خان ابھی تک ڈٹے ہوئے ہیں اور گزشتہ روز بھی یہ اعلان کر چکے ہیں کہ وہ نوازشریف کے استعفے اور انصاف ملنے تک دھرنا ختم نہیں کرینگے تاہم عوامی تحریک کا دھرنا ختم ہونے کے بعد عمران خان کے دھرنے کی کوئی حیثیت نہیں رہی جبکہ ان کا دھرنا بھی محض نمائشی رہ گیا جو مسلم لیگ (ن) کے اقتدار کے عرصے کی تکمیل تک بھی برقرار کھا جائے تو بھی ان کا وزیراعظم کے استعفے کا تقاضا پورا ہونے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا تاآنکہ اپوزیشن کی دوسری جماعتیں بھی حکومت کیخلاف صف آراء ہوجائیں۔ اس تناظر میں حکومت کیخلاف محاذآرائی کی سیاست تو اب دم توڑتی نظر آتی ہے جس سے عوام کو کیاحاصل ہوا ہے اس کا اس سیاست کے علمبرداروں کو بہرصورت جواب دہ ہونا ہو گا مگر حکومت کیلئے بھی یہ مطمئن ہو کر بیٹھ جانے کا پیغام ہرگز نہیں ہے کیونکہ روٹی روزگار کے گھمبیر مسائل اور توانائی کے بحران کے ستائے عوام کا اضطراب کم ہونے کے بجائے بڑھ رہا ہے جسے آج عمران خان اور طاہرالقادری کسی سے مستعار لی گئی اپنی سیاست کے باعث کیش نہیں کرا سکے تو کل کو اپوزیشن کی حقیقی سیاست حکومت کی بساط لپیٹنے پر منتج ہو سکتی ہے۔ وزیراعظم کی جانب سے برداشت اور رواداری کی سیاست کو فروغ دینا اپنی جگہ مستحسن اقدام ہے مگر اب حکومت کو اپنی گورننس کے معاملہ میں عوام کو مطمئن کرنا ہو گا کیونکہ عوام کا اضطراب کسی نئے طوفان کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...