جنگ عظیم کے بعد معاشیات کو عالمی حیثیت میسر آ سکی نہ عالمی معاشی نظام مربوط ہو سکا۔ روس جو کبھی اشتراکی نظام معیشت کا دعویدار تھا مغرب سے معیشت کی بقا کا طلبگار ہے۔ لاطینی امریکہ کو امریکہ کا سہارا لینا پڑا۔ جنوب مشرقی ایشیائی ممالک جس کی معیشت کبھی قابل رشک تھی اور ’’ایشیائی شیر‘‘ کہلاتے تھے، منہ کے بل گرے۔ یورپی ممالک کی یونین نے ایک نئی کرنسی یعنی ’’یورو‘‘ کا نظام نافذ کر لیا اور امریکہ نے NAFTA میں شمولیت اختیار کر لی۔ اس پورے ماحول کا جائزہ لیا جائے تو نظر آتا ہے کہ ایک بار پھر قومیت نہیں تو علاقائیت سراٹھا رہی ہے۔ امریکی صدر ولیم جے کلنٹن، نے عالمی بنک اور آئی ایم ایف کے ایک گزشتہ اجلاس میں کہا تھا ’’یورپ کو چاہیے کہ وہ ایسی اقتصادی پالیسیاں اپنائے جو معاشی ترقی میں معاون ہوں اور وہ اپنی مارکیٹ کو بھی آزاد رکھ سکے۔ جاپان، جو اقتصادی طور پر عظیم ملک ہے اسے بھی عظمت دکھانا ہو گی۔ ایشیا، بلکہ ساری دنیا کی معاشی صحت کا دارو مدار جاپان پر ہے۔ امریکہ نے خسارے کے بجٹ اور بھاری شرح سود سے نجات حاصل کی ہے۔ اگرچہ اس میں کئی سال لگ گئے ہیں لیکن اسی طرح جاپان کو بھی سخت اقدام اٹھانا ہوں گے۔ جاپان کے موجودہ مسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے عالمی معاشی ترقی کو ایک نئے ولولے کے ساتھ آگے بڑھنا ہو گا۔ فقط اسی طرح سے منجملہ سرمایہ کاری نئے عزم سے جاری رہ سکے گی‘‘۔
علاقائی اتحاد:۔ آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے مذکورہ بالا اجلاس میں یہ تجویز بھی رکھی گئی کہ یورپی یونین یورپ کی معیشت کو سنبھالے۔ جرمنی روس کا ملحوظ خاطر ہو، امریکہ لاطینی امریکہ کی مدد کرے اور جاپان ایشیا میں یہی کردار ادا کرے۔ برطانیہ اپنی روایتی مارکیٹ یعنی ایشیاء کا نگہبان ہوا!
قابل ذکر یہ امر بھی ہے کہ ایشیا ایک ملک، ایک تہذیب یا ایک ثقافت نہیں بلکہ ایشیاء سیاسی، معاشی اور سماجی نشیب و فراز کا مرقع ہے۔ اس کا منفرد تاریخی پس منظر ہے یہ ایک وسیع خطہ ہے جو خصوصی تہذیب و اقدار کا حامل اور کئی مذاہب اور ثقافتوں پر مشتمل ہے۔ سیاسی، معاشی اور سماجی اقدار کے حوالے سے اسکی ہر سمت ایک دوسرے سے مختلف ہے مثلاً مشرقی ایشیاء مغربی ایشیاء سے مختلف ہے اور مغربی ایشیا جنوبی ایشیا سے، جنوبی ایشیا میں سات ممالک ہیں: انڈیا، پاکستان، سری لنکا، بنگلہ دیش، مالدیپ، نیپال اور بھوٹان۔ انڈیا سیاسی، سماجی اور معاشی اور وسعت رقبہ کی برتری کی وجہ سے ان سب ممالک میں ممتاز حیثیت رکھتا ہے۔ اس کا رقبہ 3.29 ملین مربع کلو میٹر ہے اور آبادی 0.95 بلین افراد۔ اسکی سالانہ مجموعی قومی آمدنی 225.4 بلین ڈالر ہے۔ اسکے بعد پاکستان ہے جس کی سالانہ مجموعی قومی آمدنی 42 بلین ڈالر ہے۔ بنگلہ دیش کی سالانہ مجموعی قومی آمدنی 24 بلین ڈالر ہے۔ بقیہ ممالک رقبہ اور آبادی کے اعتبار سے اور بھی کم ہیں۔ مجموعی طور پر اس خطے کے مختلف تاریخی پس منظر ہیں۔ مثلاً 68سال پہلے پاکستان، انڈیا کی تراش خراش سے وجود میں آیا۔ اس میں وہ علاقے شامل تھے جہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی۔ مشرق میں بنگال اور مغرب میں پنجاب، صوبہ سرحد، سندھ اور بلوچستان، 24 سال بعد معاشی اور ثقافتی بناء پر مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان نے علیحدگی اختیار کر لی اور اس طرح 1971ء میں بنگلہ دیش وجود میں آیا۔ ان تینوں ممالک میں شروع ہی سے سیاسی، سماجی اور معاشی اختلافات ہیں جنہیں حل کرنے کی شدید ضرورت ہے دوسری طرف سری لنکا اور نیپال کو بھی انڈیا سے شکایت ہیں اور بھوٹان کا بھی یہی حال ہے۔ اصل میں انڈیا اپنی افرادی، معاشی، فوجی قوت اور سائنسی ٹیکنالوجی کے بل بوتے پر ان پڑوسی ممالک پر اپنا تسلط چاہتا ہے جسے یہ ملک تسلیم نہیں کرتے اور شاید کر بھی نہ پائیں!
مندرجہ بالا تناظر میں جنوبی ایشیا کے ممالک کی آبادی، رقبہ، حدود اربعہ، مجموعی سالانہ پیداوار، شرح نمو، فی کس آمدنی اور اہم صنعتوں کا جائزہ لیں تو نظر آتا ہے کہ اس خطے کا ہر ملک اپنی سیاسی، سماجی اور معاشی یکتائیت رکھتا ہے۔ دوسری طرف ہمیں بیشتر مسائل ایسے نظر آتے ہیں جو ان ساتوں ممالک میں مشترک ہیں۔ مثلاً بے روزگاری، افراط زر، خسارے کی سرمایہ کاری اور تجارت میں عدم توازن۔ بے روزگاری کے خاتمے کیلئے ان سب ممالک کا انحصار اپنی اپنی صنعتوں پر ہے۔ بیشتر ممالک اقتصادی طور پر ایک دوسرے کی مدد کرنے کی بجائے آپس میں مقابلہ آراء ہیں۔ دوسری طرف خطے کی اقتصادی ترقی کا دارومدار باہمی خوشگوار تعلقات پر منحصر ہے جس سے نہ صرف امن قائم ہو گا بلکہ اس خطے کے عوام بھی خوشحال ہونگے۔ ایسی صورت میں جبکہ نیفٹا NAFTAاور یورپی یونین اپنے مقاصد کیلئے سرگرم عمل ہیں، جنوب ایشیائی ممالک کیلئے بھی ضروری ہو گیا ہے کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کیساتھ تعاون کریں۔
قومی ترجیحات:۔ مندرجہ بالا صورتحال میں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ گو کہ ان حالات میں سیاسی، سماجی اور معاشی تعاون کی ضرورت ہے لیکن اس سے پہلے یہ ضروری ہے کہ نیپال، سری لنکا، بھوٹان، انڈیا، بنگلہ دیش اور پاکستان اپنے اختلافات، خواہ وہ سیاسی ہوں یا معاشی، ختم کر دیں اور امن و شانتی سے تمام بنیادی مسائل کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کریں۔ پاکستان اور انڈیا کے درمیان سب سے بڑا مسئلہ ’کشمیر‘ کا ہے جس کیلئے ان دونوں ممالک میں تین چار بار جنگ ہو چکی ہے۔ دونوں اس کو حل کرنے کی کوشش میں دفاعی صلاحیتوں کو ترجیح دے رہے ہیں۔ دفاعی طاقت کے اظہار کیلئے انڈیا نے 11مئی 1998ء کو جوہری دھماکہ کیا جواباً پاکستان نے بھی 28مئی 1998ء کو جوہری دھماکہ کیا۔ نتیجتاً، اقوام متحدہ نے دونوں ممالک پر معاشی پابندیاں عائد کر دیں تاکہ جوہری توانائی کا فروغ نہ ہونے پائے۔ ایسی صورت میں عالمی امن کو خطرہ ہے۔ لہٰذا ضرورت ہے کہ یہ دونوں ممالک سیاسی اختلافات کو خواہ وہ کسی نوعیت کے ہوں، ختم کریں۔ بعد ازاں باہمی مفاد کیلئے ان ممالک کے معاشی نظام کی تشکیل نو کی جائے۔ مثلاً انڈیا کو لے لیں۔ اسکی معیشت پاکستان کی بہ نسبت بہتر ہے جبکہ پاکستان کی معیشت نسبتاً زیادہ ترقی پذیر ہے۔ انڈیا نے اپنے پڑوسی ممالک کو خشکی کے راستوں سے بلکہ دبئی اور سنگا پور جیسے بحری راستوں کے ذریعے برآمدات (اصل میں اسمگلنگ) میں مہارت حاصل کر لی ہے لہٰذا اسے ٹیرف کا بھی کوئی مسئلہ نہیں۔
جنوب ایشیائی ممالک کی معیشت میں اکثر مقابلہ آرائی ہے۔ بہر حا ل ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ ممالک جہاں جہاں ایک دوسرے سے تعاون کر سکتے ہیں، ضرور کریں۔ مثلاً بنگلہ دیش پٹ سن کی پیداوار میں پہلے نمبر پر ہے جبکہ پاکستان توانائی، گیس اور ایندھن میں خود کفیل ہورہا ہے اور جغرافیائی طور پر وسط ایشیائی ریاستوں کی پیداوار کی کھپت کیلئے معاون بھی۔ انڈیا فولاد اور انجینئرنگ میں امتیازی مقام رکھتا ہے۔ ان ممالک نے آپس کی معاشی خوبیوں سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا اور سیاسی اور جغرافیائی جھگڑوں میں الجھے رہے ہیں۔ بے شک معاشی غیر ہم آہنگی اور غیر متوازن مقابلہ آرائی سے انڈیا کی پوزیشن کو بہتر مقام حاصل ہے۔ اے پی پی کی 24؍اکتوبر 1998ء کی رپورٹ کے مطابق انڈیا کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے کہا ’’ہر ملک کو چاہیے کہ اپنا الگ معاشی نظام اپنی مقامی ترجیحات کی بنیاد پر تشکیل دے۔ علاقائی عصبیت نے سخت بحران پیدا کیا ہے، جیسا کہ جنوبی ایشیا میں دیکھا گیا ہے۔ تاہم کوئی بھی ملک تن تنہا ترقی نہیں کر سکتا‘‘۔ امرتا سین نے جنہیں 1991ء میں قحط و غربت کے گہرے مطالعہ کرنے پر معاشیات میں نوبل انعام ملا کہا : ’’گلوبلائزیشن صرف اسی صورت میں کامیاب ہو سکتی ہے جب سماجی اور معاشی اقدار مضبوط ہوں بہرحال سوشل سیفٹی نیٹ Social Safety Nets ہونا ضروری ہیں‘۔
ویلیوڈیشن:۔دوسری طرف سارک ممالک میں فی کس آمدنی کی شرح کم سے کم 180 ڈالر اور زیادہ سے زیادہ 600ڈالر ہے جو بالترتیب بھوٹان اور سری لنکا میں ہے۔ بیشتر ممالک میں صنعت و حرفت میں معقول اضافے کے باوجود زراعت پر زور ہے جس کا حصہ قومی مجموعی پیداوار میں 25فیصد سے زیادہ ہے اور ان ممالک میں بھی جہاں پر قومی مجموعی پیداوار زیادہ تر مینوفیکچرنگ پر منحصر ہے وہاں پر بھی اکثر فوڈ اور ٹیکسٹائل کا خاطر خواہ حصہ ہے۔ اسی لیے ان ممالک کی بیشتر برآمدات میں بنیادی اشیاء اور کم لاگت والی ٹیکسٹائل کی مصنوعات شامل ہیں جبکہ سارک ممالک کی درآمدات میں زیادہ تر مشینری، خوراک اور دیگر مینوفیکچر شدہ اشیاء شامل ہیں تاہم انڈیا اور پاکستان نے اس خطے میں اپنی پیداوار اور تجارت میں کافی تبدیلی کی ہے۔ (جاری)
جنوبی ایشیاء کا معاشی اتحاد
Oct 23, 2015