لاہور (سید شعیب الدین سے) پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے این اے 122 اور پی پی 147 کے بعد اپنے بلدیاتی امیدواروں کو بھی تخت لاہور کی جنگ میں تنہا چھوڑ دیا۔ لارڈ میئر لاہور کی ”پرائم پوسٹ“ کیلئے ایک بار پھر مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف میں ”گھمسان کی جنگ“ جاری ہے تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) کے لیڈر شہر کے گلی کوچوں میں کارنر میٹنگز سے خطاب کر رہے ہیں مگر پیپلز پارٹی جس کے لاہور کی 274 یونین کونسلوں میں سے بمشکل ایک تہائی یونین کونسلوں پر امیدوار موجود ہیں الیکشن سے پہلے ہی مشکلات کا شکار ہو چکی ہے۔ لاہور میں پیپلز پارٹی کو امیدواروں کی قلت کا پہلے ہی سامنا تھا دستیاب امیدواروں نے اپنے پوسٹروں اور فلیکسوں پر سے شریک چیئرمین آصف زرداری کی تصویر ہی اڑا دی ہے۔ پیپلز پارٹی کے امیدواروں کے فلیکسوں اور پوسٹرز پر ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر اور بلاول کی تصاویر موجود ہیں۔ کئی لیڈروں نے ”تیر“ کے نشان سے بھی چھٹکارا حاصل کر لیا ہے اور مختلف نشانوں پر الیکشن لڑ رہے ہیں پیپلز پارٹی کے ان ”مایوس امیدواروں“ نے تحریک انصاف کا ٹکٹ نہ ملنے کے بعد ”باغی“ ورکرز سے ہاتھ ملا لئے ہیں اور یہ امیدوار پیپلز انصاف الائنس کے نام سے الیکشن لڑ رہے ہیں ان ناراض امیدواروں اور ورکرز کا کہنا ہے کہ انہیں قیادت نے اب بالکل تنہا چھوڑ دیا ہے پیپلز پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل سردار لطیف کھوسہ، سینٹ میں قائد حزب اختلاف سنیٹر چودھری اعتزاز احسن، سید یوسف رضا گیلانی، جہانگیر بدر، مہرین انور راجہ، مصباح الرحمن، یاسمین مصباح الرحمن، صدر پی پی پی پنجاب منظور وٹو، بشریٰ اعتراز، نوید چودھری، عزیز الرحمن چن، اورنگزیب برکی سمیت دیگر اعلیٰ قیادت لاہور میں موجود ہے صرف چند ایک کے سوا کوئی بلدیاتی امیدواروں کو ”لفٹ“ کرانے پر تیار نہیں ہے اورنگزیب برکی، عزیز الرحمن چن، نوید چودھری کو بلایا جائے تو یونین کونسلوں کیلئے ہونیوالے جلسوں کارنرز میٹنگز میں آ جاتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما سنیٹر سعید غنی لاہور میں آکر 5 جلسے کر کے جا چکے ہیں ثمینہ گھرکی پیپلز پارٹی لاہور کی صدر ہیں مگر ان کا سارا دھیان صرف اپنے حلقے کی یونین کونسلوں کے امیدواروں تک مرکوز ہے میاں منظور وٹو ہفتے کے 5 دن لاہور میں گزارتے ہیں مگر امیدواروں کو ان سے بھی فیض نہیں ملا ہے۔
بلدیاتی امیدوار
بلدیاتی الیکشن میں بھی پی پی امیدوار ”تنہا“ مشکلات کا شکار
Oct 23, 2015