”جیوندے رہے تے‘ ملاں گے لکھ واری!“

لندن میں 1983ءسے مقیم دانشور‘ سیاستدان اور بزنس مین سید علی جعفر زیدی میرے 56 سال سے دوست ہیں۔ ہم نے زندگی کا سفر اکیلے اکیلے اور کبھی اکٹھے طے کیا۔ زیدی صاحب 1984ءمیں برطانیہ کی لیبر پارٹی میں شامل ہوئے۔ 2005ءمیں انہوں نے "GORGE GALLOWAY" کی "RESPECT PARTY" کے امیدوار کے طور لندن کے علاقہ "TOOTING" سے دارالعلوم کی رکنیت کا انتخاب لڑا۔ ہار گئے تھے۔ اب ڈیڑھ سال سے پھر لیبر پارٹی میں ہیں۔ 18 اکتوبر کو زیدی صاحب اور بھابھی بیگم شمیم جعفر زیدی میرے بیٹے انتصار علی چوہان کے گھر میری عیادت کو تشریف لائے۔

باتوں باتوں میں زیدی صاحب نے مجھ سے پوچھا ”اگر آپ میرے ساتھ کل جا سکیں تو میں آپ کی ملاقات اپنے لیڈر (لیبر پارٹی کے سربراہ) "GEREMY CORBYN" سے کرا سکتا ہوں“ میں نے کہا کہ ”کل تو میرا میڈیکل ٹیسٹ ہے۔ پھر کبھی سہی“۔ بولے۔ اوہو! میں اپنے پورے خاندان کے ساتھ پرسوں رومانیہ جا رہا ہوں۔ 31 اکتوبر کو واپسی ہو گی۔“ میں نے کہا کہ میں بھی 31 اکتوبر کو ہی وطن واپس جا رہا ہوں۔
”جیوندے رہے تے‘ مِلاں گے لکھ واری!“
مجھے نہیں معلوم کہ یہ مصرع کس پنجابی شاعر کا ہے لیکن جب زیدی صاحب 1983ءمیں اپنے والدین کو سوگوار چھوڑ کر اپنی بیگم اور بچوں کو ساتھ لے کر عازم لندن ہوئے تھے تو میں نے یہ مصرع اس شاعر کی اجازت کے بغیر اس سے مستعار لے کر زیدی صاحب کے لئے الوداعی نظم لکھی تھی۔ اس نظم کی ٹِیپ کا مصرع
”جیوندے رہے تے‘ مِلاں کے لکھ واری!“
تھا۔ زیدی صاحب اور میری قدرِ مشترک یہ ہے کہ میرے والد صاحب رانا فضل محمد چوہان اور ان کے والد سید اکبر حسین زیدی دونوں تحریک پاکستان کے رکن تھے۔ زیدی صاحب کا ننھیال پانی پت تھا۔ اور ان کے خان لیاقت علی خان سے گہرے تعلقات تھے۔ سرخ پوش لیڈر خان عبدالغفار خان کے بیٹے (خان عبدالولی کے بھائی) خان عبدالعلی خان گورنمنٹ کالج سرگودھا کے پرنسپل تھے۔ سید علی جعفر کالج میں مجھ سے دو سال جونیئر تھے اور ڈرامیٹک سوسائٹی کے روحِ رواں۔ میں شعر و ادب و صحافت کے راستے پر چل رہا تھا۔
میں نے 1961ءمیں گریجوایشن کی۔ ”سرگودھا یونین آف جرنلسٹس“ کا صدر تھا اور مقامی پولیس اور سپیشل برانچ کے افسران کی نظروں میں ”ناپسندیدہ شہری“۔ ستمبر 1961ءمیں گورنر مغربی پاکستان نواب امیر محمد خان نے ”کالا قانون“۔ یونیورسٹی آرڈیننس جاری کیا تو اس کے خلاف سرگودھا میں طلبہ کا احتجاجی جلوس سید علی جعفر زیدی کی قیادت میں نکلا اور 1963ءمیں پریس اینڈ پبلی کیشنز آرڈیننس کے خلاف صحافیوں کا جلوس میری قیادت میں۔ پیپلز پارٹی کے قیام کے بعد 1968ءکے اوائل میں پارٹی کی ہائی کمان کے ایک رکن جناب حنیف رامے سرگودھا گئے تو اپنے پرانے کلاس فیلو راجہ غالب احمد کے گھر ٹھہرے۔ راجہ صاحب نے میرے رامے صاحب سے تعلقات شروع کرا دیئے۔
میں نومبر 1969ءمیں لاہور شفٹ ہو گیا۔ پیپلز پارٹی کے ترجمان ہفت روزہ ”نُصرت“ کے چیف ایڈیٹر جناب محمد حنیف رامے اور ایڈیٹر سید علی جعفر زیدی۔ میں ذوالفقار علی بھٹو کا "FAN" تھا۔ ”نصرت“ میں کالم شروع کیا۔ میرے کالم کا عنوان تھا۔ ”عداوت ہی سہی“ جن مذہبی لیڈروں/ سیاستدانوں کی بھٹو صاحب سے عداوت تھی‘ میں ان کو ناراض کرتا رہا۔ 7 جولائی 1970ءکو بھٹو صاحب کی سرپرستی اور رامے صاحب کی ادارت میں روزنامہ ”مساوات“ جاری ہوا۔ میں ”مساوات“ میں سینئر سب ایڈیٹر اور علاقائی خبروں کی اشاعت کا انچارج تھا۔
دسمبر 1970ءکے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کے امیدواران قومی و صوبائی اسمبلی رامے صاحب سے ملنے آتے تو رامے صاحب مجھے ان سے ملواتے۔ اپنی خبریں چھپوانے کے لئے وہ بھی مجھ سے مل کر بہت خوش ہوتے اور جب حنیف رامے صاحب نے ”مساوات“ کے نام نہاد ترقی پسند اور مجھ سے سینئر صحافیوں کے اکسانے پر اکتوبر 1991ءمیں مجھے اور میرے دو ساتھیوں سید عاشق جعفری اور فاروق اختر کو ”مساوات“ سے نکال دیا تو پیپلز پارٹی کے منتخب ارکان قومی و صوبائی اسمبلی میری بہت بڑی طاقت بن گئے۔ میں نے اپنے ہفت روزہ ”پنجاب“ اور روزنامہ ”سیاست“ کے ذریعے پیپلز پارٹی کے ”مساوات“ اور وزیر خزانہ حنیف رامے کو شکست دے دی تھی۔
جناب حنیف رامے وزیراعلیٰ پنجاب بنائے گئے تو انہوں نے سید علی جعفر زیدی کے ذریعے مجھ سے صلح کر لی۔ اپریل 1976ءمیں میری اہلیہ بیگم نجمہ اثر چوہان بیگم بھٹو کی چہیتی رکن پنجاب اسمبلی مس ناصرہ کھوکھر کو شکست دے کر پنجاب پیپلز پارٹی (شعبہ خواتین) کی سیکرٹری جنرل منتخب ہو گئیں۔ چیئرمین بھٹو نے پنجاب اسمبلی میں خواتین کی مخصوص نشستوں پر میری بیگم کو نظرانداز کر دیا اور شکست خوردہ ناصرہ کھوکھر کو رکن پنجاب اسمبلی منتخب کروا دیا۔ اس کے بعد میرا بھٹو اور بھٹو خاندان سے انتقام شروع ہو گیا۔ اپنی وزارت عظمیٰ کے دوسرے دور میں محترمہ بے نظیر بھٹو مجھے اپنے ساتھ عوامی جمہوریہ چین کے دورے پر لے گئیں۔ وہ نام نہاد ترقی پسند صحافی پریشان ہو گئے جنہوں نے مجھے اور میرے ساتھیوں کو ”مساوات“ سے نکلوایا تھا۔
اس سے پہلے میں 1986ءمیں سوویت یونین اور اس کے بعد کئی دوسرے سوشلسٹ ملکوں کے دورے کر کے ان بڑے "LEFTIST" صحافیوں کو پریشان کر چکا تھا جنہوں نے ”مساوات“ میں میری اور میرے دو ساتھیوں کی بحالی میں طوطا چشتی کا اس طرح مظاہرہ کیا تھا کہ ”عالمی طوطا برادری“ بھی شرمندہ تھی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو‘ بیگم نجمہ اثر چوہان کو دوبارہ پیپلز پارٹی میں نمایاں پوزیشن دینا چاہتی تھیں۔ انہوں نے سید علی جعفر زیدی اور بیگم شمیم جعفر زیدی سے بھی سفارش کرائی لیکن میری بیگم تو وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے ساتھ میرے دورہ چین پر بھی ناخوش تھیں۔
انہوں نے انکار کر دیا‘ لیکن سید علی جعفر زیدی اور میرے خاندان کے تعلقات قائم رہے۔میں جب لندن آیا تو میں زیدی صاحب کے گھر ٹھہرا۔ سوائے ان دنوں کے جب زیدی صاحب اپنے بزنس کو نقصان پہنچاتے ہوئے جلاوطن محترمہ بے نظیر بھٹو کی لابی بنانے کے لئے برطانیہ کے ہر شہر میں ان کے ساتھ ہوتے تھے۔ دراصل زیدی صاحب کو جناب بھٹو سے عشق کا مرض تھا۔ (میں نے جان بوجھ کر ان سے نہیں پوچھا)۔ شاید اب بھی ہو؟ مرزا غالب نے کہا تھا کہ
”کہتے ہیں جس کو عشق‘ خلل ہے دماغ کا“
زیدی صاحب کا وسیع و عریض گھر جلاوطن محترمہ بے نظیر بھٹو اور ان کے عقیدت مندوں کی ملاقاتوں کا ڈیرہ بنا رہا اور بیگم شمیم جعفر زیدی‘ افسر مہمانداری‘ اپریل 1986ءمیں محترمہ بے نظیر بھٹو نے جنرل ضیاءالحق کی زندگی میں ہی وطن واپس لوٹنے کا پروگرام بنایا تو انہوں نے سید علی جعفر زیدی اور ان کی بیگم کو بھی ساتھ چلنے کو کہا۔ زیدی صاحب نے انہیں پریشان کر دیا۔ کہا ”محترمہ! میں امام حسینؓ کی اولاد ہوں‘ یزیدِ وقت سے مصالحت نہیں کر سکتا“۔ پھر راستے الگ ہو گئے۔ جناب غلام مصطفی جتوئی اور ملک غلام مصطفی کھر نے نیشنل پیپلز پارٹی بنائی اور کہا کہ ”ہماری پارٹی کی پہلی صف میں کھڑے ہو کر وطن کی خدمت کریں“ تو جواب دیا کہ ”میں لندن بیٹھ کر آپ کو وطن کو ختم کرتے دیکھتا رہوں گا“
سید علی جعفری زیدی کا برطانیہ اور کئی دوسرے کئی ملکوں میں بزنس ہے۔ بیگم شمیم جعفر زیدی ان کی معاونت کرتی ہیں۔ زیدی صاحب کی بڑی بیٹی ڈاکٹر قرا¿ة العین ہانگ کانگ میں ایک بہت بڑے ادارے میں ڈائریکٹر ہے۔ بیٹے ڈاکٹر سرمد جعفر زیدی کا لندن میں اپنا میڈیکل سنٹر ہے جہاں مختلف امراض کے 12 ماہرین ڈاکٹرز اور عملہ کے کئی ارکان ہیں۔ چھوٹی بیٹی نرجس ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں سینئر ڈائریکٹر ۔زیدی صاحب کے والدین نے لندن میں رہنا اور زندگی کے آخری لمحات گزارنا پسند نہیں کیا تھا۔ ان کی قبریں پاکستان میں ہیں۔ میں نے زیدی صاحب کے گھر ایسے کئی سیاستدانوں اور برطانیہ میں مقیم قانون دانوں‘ ماہرین تعلیم‘ نامور دانشوروں‘ آزاد خیال اور مختلف الخیال اہل قلم اور ”بھٹو ازم گزیدہ“ خواتین و حضرات سے ملاقاتیں کیں۔ وہ سب پاکستان کی ترقی و خوشحالی کا خواب دیکھتے ہیں۔ زیدی صاحب کہتے ہیں کہ قیام پاکستان سے پہلے ہندوستان‘ برطانیہ کی کالونی تھا اور اب برطانیہ امریکہ کی کالونی ہے۔“
اپنے گھر واپسی کے لئے زیدی صاحب اور بیگم زیدی اپنی گاڑی میں بیٹھنے لگے تو انہوں نے مجھ سے کہا کہ ”آپ کے دو بیٹے‘ بہوئیں اور پوتے پوتیاں لندن میں رہتے ہیں۔ آپ بھی مستقل لندن میں رہیں۔“ میرے بیٹے انتصار علی چوہان اور بہو ریحانہ انتصار نے ان کی گاڑی کا دروازہ کھولا اور میں نے ان سے کہا کہ
”جِیوندے رہے تے‘ مِلاں گے لکھ واری!“
وہ دونوں اداس ہو کر چلے گئے اور مجھے بھی اداس کر گئے۔

ای پیپر دی نیشن