مکرمی! صوفی غلام مصطفیٰ تبسم میرے سسر تھے۔ وہ کبھی کبھار اپنے ساتھ محلے بازار لے جاتے تھے۔ ایک مرتبہ انارکلی کے ایک سٹور سے صوفی صاحب نے چند چیزیں خریدیں۔ سیل مین بل بنا کر کائونٹر پر لایا۔ کائونٹر پر دکان کا مالک پیسے خود وصول کر رہا تھا۔ جب اُس نے صوفی صاحب کی شکل دیکھی تو انتہائی ادب کے ساتھ صوفی صاحب سے عقیدت اور محبت کا اظہار کیا پھر بل دیکھ کر سیل مین کو بری طرح جھاڑنے لگا۔ ’’اُوئے دیکھتے نہیں یہ کون ہیں؟ ان کی ملک کے لئے بڑی خدمات ہیں۔ یہ بچوں کے شاعر ہیں۔ انہوں نے جنگی ترانے لکھے‘‘۔ مجھے یاد ہے بل پہلے 222 روپے 23 پیسے تھا۔ دکان کے مالک نے بڑی پھرتی سے بل میں سے 23 پیسے کاٹ دیئے اور بل صوفی صاحب کے سامنے رکھ دیا۔ صوفی صاحب نے پورا بل ادا کرتے ہوئے کہا’’یہ رعایت مجھے منظور نہیں‘‘۔68 سالوں میں ہر قسم کے حکمران ہم پر مسلط ہوئے اور اپنے آپ کو عوام کے غمگسار اور ہمدرد کہتے ہوئے ان کی زبان نہیں تھکتی لیکن عوام کو رعایت صرف 23 پیسے کی دی۔ عوام جن میں اب ایک قطرہ بھی خون کا باقی نہیں ہے، چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں ’’ہمیں یہ رعایت منظور نہیں‘‘ (ماجد علی شاہ 302 اقبال ایونیو جوہر ٹائون لاہور)