ماڈل ٹائون سرگودھا۔ خادم پنجاب کی ساکھ کا امتحان

کہا جاتا ہے کہ جمہوری نظام میں عوام اور ریاست کے ادارے مضبوط ہوتے ہیں چنانچہ کسی سطح پر ناانصافی ممکن نہیں ہوتی۔ خاص طور پر حکومت کی مشینری کنٹرول میں رہتی ہے۔ دنیا میں ایسا ہوتا ہو گا لیکن پاکستان میں اور خاص طور پر پنجاب میں بہت کچھ اس کے الٹ بھی ہو رہا ہے۔ عجیب بات ہے کہ صوبے کا وزیراعلیٰ خادم پنجاب شہباز شریف ہے جن کا دبدبہ، رعب اور احتساب کی شہرت بہت ہے مگر اسی پنجاب میں اجتماعی مفاد کے بعض کیس ایسے ہیں جہاں سرکاری دفاتر کے کلرک مافیا صوبے کے گورنر صوبے کی سب سے بڑی عدالت ہائی کورٹ اور صوبے میں احتساب کے مثالی ادارے یعنی صوبائی محتسب کے فیصلوں کو گذشتہ کئی برس سے جوتے کی نوک پر رکھ کر اطمینان سے اپنے اپنے مقام پر مزید لوٹ مار کے لئے رواں دواں ہے۔ آج صرف ایک مثال دے رہا ہوں۔ سرگودھا امپرومنٹ ٹرسٹ لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی طرح عوام کو رہائشی سہولتیں فراہم کرنے والا ادارہ ہے جس کا سربراہ ڈپٹی کمشنر، ڈی سی او، تحصیل ناظم کی سطح کا عہدیدار رہتا ہے۔ سرگودھا امپرومنٹ ٹرسٹ نے پہلے بھی رہائشی سکیمیں بنائیں اور پھر 1990ء کی دہائی میں ماڈل ٹائون سرگودھا کے نام سے لاہور سرگودھا روڈ پر رہائشی سکیم کا اعلان کیا۔ سرکاری سطح پر اس کی تشہیر کی گئی۔ زندگی کے ہر شعبے سے درخواست دہندگان کو ضابطے کے تحت پلاٹ کی رقوم جمع کروانے کی ہدایت کی گئی۔ عوام الناس نے رقوم جمع کروائیں۔ سرگودھا امپرومنٹ ٹرسٹ نے فوری طور پر پلاٹوں کی الاٹمنٹ کا وعدہ کیا۔ محکمہ مال سے جگہ حاصل کر لی گئی۔ سڑکوں کے نقشے بنے۔ لوگوں سے بجلی، سوئی گیس کے نام پر رقوم بھی لے لی گئیں۔ اسی دوران وہی ہوا جو اس ملک میں بہت سے اداروں میں ہو رہا ہے۔ ٹرسٹ کے اکائونٹس اور دوسرے شعبوں کے افراد نے عوام کی رقوم خوردبرد کرنا شروع کر دیں۔ محکمہ مال کو مکمل ادائیگی نہ ہونے پر زمین کی الاٹمنٹ پر پھڈا ہوا۔ اینٹی کرپشن میں ٹرسٹ کے سیکرٹری اور اکائونٹس آفیسر کے خلاف تحقیقات کے بعد رپورٹیں سامنے آئیں۔ المیہ یہ رہا کہ مختلف ادوار میں بعض ڈی سی او صاحبان اور دوسرے اعلیٰ حکام نے بے حسی کا مظاہرہ روا رکھا۔ الاٹی محتسب اعلیٰ کے پاس گئے۔ ان کے حق میں فیصلہ ہوا۔ ہائی کورٹ نے حکم دیا کہ الاٹیوں کو مزید رقوم ادا کرنے کے لئے نہ کہا جائے اور سرگودھا امپرومنٹ ٹرسٹ اپنے محکمانہ گھپلوں کی سزا الاٹیوں کو نہ دے۔ اس سارے معاملات کو لٹکانے کے لئے اپیل پر اپیل کا سلسلہ چل نکلا۔ گورنر نے محتسب اعلیٰ کے فیصلے کے حوالے سے ٹرسٹ کی اپیل خارج کی۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ وزیراعلیٰ شہباز شریف کا رعب اور دبدبہ بھی آج تک سرگودھا کی انتظامی مشینری کا کچھ نہیں بگاڑ سکا۔ لاہور سے سرگودھا جانے والے سرگودھا میں داخل ہونے سے چند کلومیٹر پہلے ماڈل ٹائون چونگی پر رکتے ہیں۔ دائیں طرف اور دور تک پھیلی بے آباد سکیم پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ اپنے گھروں کو آباد دیکھنے کی حسرت میں آسمان کی طرف نگاہ اٹھا کر سوچتے ہیں کہ اللہ کی لاٹھی کب ان لوگوں کی کمر توڑے گی جنہوں نے ہزاروں لوگوں کی خون پسینے کی کمائی لوٹ کر انہیں معلق کر رکھا ہے۔ لوگ یہ بھی سوچتے ہیں کہ آشیانہ اور ایسی ہی دوسری عوام دوست سکیمیں بنانے والے وزیراعلیٰ کی نظر آج تک اس اہم عوامی مسئلہ کی طرف کیوں نہ گئی۔ ہزاروں الاٹی اس حقیقت کے پیش نظر بہت مایوس بھی ہیں کہ اپنے حق کے لئے انہوں نے پنجاب کی سطح پر محتسب اعلیٰ، لاہور ہائی کورٹ غرض ہر ادارے کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔ ان کے حق میں انصاف پر مبنی فیصلے بھی ہوئے ہیں لیکن سرگودھا کی ضلعی انتظامیہ آج بھی ٹرسٹ کے کلرک مافیا کے گھپلوں پر ان کا احتساب کرنے کی بجائے لوگوں کو پلاٹوں کا قبضہ دینے میں اپیلوں اور ایسے ہی تاخیری حربوں سے کام لے رہی ہے۔ عدالتوں سے واضح فیصلوں کے بعد ان پر عملدرآمد نہ ہو پانے سے خود صوبے کے سب سے بڑے منظم یعنی خادم پنجاب کی انتظامی گرفت پر انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔ کیا ہم توقع کریں کہ وہ اس معاملے کا فوری نوٹس لیں گے اور ماضی میں مسلم لیگ (ن) کے دور میں شروع ہونے والی ایک سکیم کے ہزاروں الاٹیوں کو فوری انصاف دلوائیں گے؟

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...