کہتا مگر ہے فلسفہ زندگی کچھ اور

مرشد اقبال کمال ہی کمال تھے کہتے ہیں۔ ؎

کہتا مگر ہے فلسفہ زندگی کچھ اور
مجھ پر کیا یہ مرشد کامل نے راز فاش
’’باہر کمال رند آشفتگی خوش است
ہر چند عقل کل شدہ بے جنون مباش‘‘
مرشد کامل نے مجھ پر زندگی کی حقیقت کا بھید کھول کر رکھ دیا ہے اور وہ یہ ہے کہ ہر کمال کے ساتھ تھوڑی سی از خود رفتگی، آشفتہ حالی اور عشق کا ہونا ضروری ہے۔ اگرچہ تو نے کمال جدوجہد سے عقل کل کا منصب بھی حاصل کر لیا ہے، پھر بھی ساتھ ساتھ جنون کا رنگ ہوابدی ہے۔ مطلب یہ کہ کوئی شخص خواہ وہ عقل و دانش کی بلند ترین چوٹی پر کیوں نہ پہنچ جائے، عشق کے بغیر خدا، کائنات اور زندگی کی حقیقت کے راز سے آشنا نہیں ہو سکتا۔
حلقہ 120 کی انتخابی مہم میں شب و روز محنت کے بعد مستحسن نے پرتگال میں چند دن آرام کی دعوت دی۔ سوچا اتنی محبت سے دعوت دی ہے اس بار اس کی مان لیتے ہیں سو یہاں ککی و پیرزادے کو لیکر آ گیا لیکن یہاں بھی وہی بحث مباحثہ فکری نشستیں اور وطن کی فکر، عملی جدوجہد نہیں نہ سہی فکری نشستیں زیادہ تھکا دیتی ہیں۔ یہ میری خوش نصیبی کہ والد کی وطن سے محبت رگ رگ میں ان کے خون کے ساتھ شامل دوڑتی ہے۔ یہاں ہزاروں میل دور بھی چین سے نہیں بیٹھنے دیتی اوپر سے دوست بھی ایسے جن کی فکر بھی یہی ہے اور جنون پاکستان ہے۔
ککی پیرزادہ کہتا ہے مسلم لیگ ڈرائینگ روم کی جماعت تھی۔ قائداعظم محمد علی جناح نے اسے عوامی جماعت بنایا۔ عوامی جماعت بنانے کے لئے عوامی جمہوری فیصلے اور جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔ مسلم لیگ قائد کے بعد عوامی نہیں رہی اس لئے پہلے تو مختصر مدتی حکومتیں بنی بعد میں مارشل لاء اور پھر مارشل لاء ملک دو لخت ہو گیا۔ اس میں سب سے بڑا عنصر مسلم لیگ کی غیر فعالیت تھا۔ نواز شریف نے مسلم لیگ کو ’’عوام‘‘ بنایا خصوصاً 12 اکتوبر کے بعد مسلم لیگ ن عوام کے دلوں کی دھڑکن بنی۔ عدالتی فیصلے کے بعد نواز شریف جی ٹی روڈ سے لاہور پہنچے اور مریم بی بی نے جس طرح 120 کی انتخابی مہم ’’روک سکتے ہو روک لو‘‘ عوامی وزیراعظم نواز شریف عوامی وزیر کے خلاف سازشوں کا جال کے نعروں سے چلائی مسلم لیگ (ن) عوامی محبویت کے کمال کو پہنچ رہی ہے۔ پانامہ سے اقامہ کا سارا ڈرامہ نواز شریف کی مقبولیت کو انتہا پر لے گیا۔ یہ بدنامی کے بجائے نیک نامی اور غیر مقبولیت کے بجائے محبویت کا باعث بنا ہے۔
مستحسن ہاشمی اپنے مخصوص دانشورانہ انداز میں مؤقف بیان کرتے ہیں ان کا نظریہ ہے کہ پاکستان کی ریاست اس وقت تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہی ہے۔ ٹرمپ مودی گٹھ جوڑ خطرناک بلکہ تباہ کن ہے۔ افغانستان میں موجود اتحادی افواج اور کابل انتظامیہ ٹرمپ مودی گٹھ جوڑ میں پاکستان کے خلاف تباہی کی منصوبہ بندی کر رہی ہے ایران کا مفاد اپنا ہے۔ چین عالمی تناظر میں آگے بڑھ رہا ہے اس لئے کسی بھی قسم کے ٹکرائو کا حصہ نہیں بننا چاہتا۔ اس عالمی صورتحال میں ہمیں دانشمندی کے ساتھ نہ صرف جمہوریت کو بچانا ہے بلکہ قومی اداروں کے ساتھ محاذ آرائی کے بجائے افہام و تفہیم کے ساتھ یک جان کئی قالب کے مصداق قوت کو مجتمع کرنا ہے۔ وقتی طور پر خصوصاً اس وقت ’’مثالی جمہوریت‘‘ کے بجائے ’’افہامی جمہوریت‘‘ کا راستہ چننا ہو گا۔ سی پیک کوئی چھوٹا یا معمولی منصوبہ نہیں ہے قوموں کی زندگی بدل دینے والا یہ منصوبہ اگر ہماری جغرافیائی پوزیشن کی وجہ سے ہمیں مل گیا ہے اور لیڈر شپ نے اس کو تکمیل کی شاہراہ پر پہنچا دیا ہے تو اس کو رول بیک نہیں ہونا چاہئے۔ الزام تراشی اور ٹکرائر کے بجائے خاموشی اور مفاہمت کا راستہ اپنانا چاہئے تا کہ قومی ادارے مکمل یکسوئی کے ساتھ دہشت گردی کی جنگ کو مکمل جیت جائیں۔ ہمارے قومی ادارے پیشہ وارانہ صلاحیت، سچے جذبے اور بہادری میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے۔ ہمارا ایٹمی پروگرام محفوظ ترین ہاتھوں میں ہے اب خارجہ محاذ پر بہترین سفارت کاری اور اندرونی طور پر سکیورٹی کو بہتر سے بہتر کریں تو اس بحرانی دور سے نہ صرف محفوظ گزر سکتے ہیں بلکہ بے شمار ثمرات بھی حاصل کر سکتے ہیں۔
معاذ ہاشمی ہمیشہ مستحسن کو سپورٹ کرتا ہے۔ وہ اس کے نظریہ کی حمایت کرتے ہوئے کہتا ہے اگر نواز شریف نے سختیاں جھیلی ہیں۔ منتخب وزیراعظم کو ہتھکڑیاں ڈال کر جہازوں میں باندھا گیا ہے یا قلعہ کی تنہائیوں اور مصیبتوں سے گزارا گیا ہے تو شہباز شریف بھی ان کے ساتھ ساتھ عام آزمائش میں شریک تھے۔ وہ بھی والد کے جنازے میں نہیں آ سکے۔ سترہ سالہ جواں مرد حمزہ بھی جیل میں رہا اور دس سال مشرف کے دور میں ’’قیدی‘‘ کی حیثیت سے آزمائش میں رہا۔ اس کا دل بھی بدلہ چاہتا ہے لیکن ان کا مؤقف ہے ہم جمہوریت کے تسلسل، عالمی اور ملکی حالات کے مطابق مفاہمت اور ہوش مندی کے ساتھ ’’سفر‘‘ کریں۔
میں ہنس پڑا۔ میں ان دوستوں کی دانش اور جذباتیت سے محظوظ ہو رہا تھا مجھے وہ وقت یاد آیا جب 80 کے اوئل میں محمد نواز شریف اور محمد شہباز شریف اور ان کے والد محترم میاں محمد شریف کے ساتھ میرا اور میرے والد امین بٹ کا سیاسی اور نجی سفر شروع ہوا۔ وقت سنیما کی سکرین کی طرح میری آنکھوں کے سامنے گھوم گیا۔ مودب اور انتہائی فرمانبردار شریف برادران ان کو دنیا کی کوئی قوت، لالچ اور آزمائش جدا نہیں کر سکتی۔ یہ سب جو ان کے اختلاف کے بارے میں پھیلائی جا رہی ہیں جھوٹ پر مبنی ہیں یہ ایک جان دو قلت ہیں۔ شہباز شریف اگر چاہتے تو بہت پہلے دنیا کے فوائد اور ثمرات حاصل کر لیتے۔ سلام ہے میاں شریف کی تربیت پر انہوں نے دونوں کے ذہن میں ایک بات بٹھا دی ہے پہلے دن سے کہ کفن کی کوئی جیب نہیں ہوتی۔ خدمت خلق میں ہی عظمت ہے۔ آج اندھیرے چھٹ چکے ہیں۔ سی پیک سے اورنج ٹرین تک کا سفر طے ہوا چاہتا ہے۔ 2018ء میں ہم عوام سے کہیں گے ہم بڑے دعوے نہیں کرتے نہ نیا پاکستان کا جھانسہ دیتے ہیں۔ 2013ء کا پاکستان بہتر ہے یا 2018ء کا فیصلہ خود کریں۔ ہم پر جو آزمائش آئی اس کا صلہ ہم اب سے پائیں گے اور ہمارا رب بہتر صلہ دینے والا رحیم اور کریم ہے۔ باقی میرے دوستوں کی بحث کا جواب میرے مرشد حضرت اقبال دے گئے ہیں اس لئے سب سے پہلے اس کو آپ کے سامنے رکھا ہے۔

ای پیپر دی نیشن