پاکستان میں اعلی تعلیم کا مستقبل اور امکانات

جامعہ گجرات سے برادرم شیخ عبدالرشید کی پر خلوص دعوت پہ آواری ہوٹل لاہور میں ایک فکری نشست میں شرکت کا موقع ملا۔لاہور علمی ادبی بیٹھکوں کا ہمیشہ سے مرکز رہا ہے ۔پاکستان میں اس شہر کو یقنیاً اسی لیے ایک خاص پہچان حاصل رہی ہے کہ یہاں سے ہمیشہ علم و آگاہی کی خوشبو آنے والوں کے سینے مہکاتی رہی ہے ۔ایسی کسی محفل میں بلاوہ آئے تو مجھ جیسا بندہ ہر طرح کی مصروفیات چھوڑ کے اہل دانش کی مجلس میں حاضری ضروری سمجھتا ہے ۔پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بننا تھا ۔ایک ایسی ریاست جہاں مسلمان اسلامی فلسفے کے مطابق اپنی زندگیاں گزار سکتے ۔’’اقرا‘‘ سے شروع ہونے والے پیغام کو ماننے والی امت آج علم سے دوری کے سبب دنیا سے بہت پیچھے ہے ۔علم جس قوم کی پہچان تھی ۔دنیا کو ستاروں پہ کمندیں ڈالنے کا گر سکھانے والے آج خود اپنی راہیں بھول چکے ہیں۔ہم سنتے چلے آرہے ہیں اس وقت دنیا میں قائم اعلی تعلیمی ادراروں میں نہ تو پاکستانی یونیورسٹیوں کا کہیں نام آتا ہے نہ ہی ساری مسلم دنیا جدید تعلیم تقاضوں کو پورا کرنے کے عمل میں اپنا حصہ ڈالتے نظر آرہی ہے ۔مستقبل کے منظر نامے پہ نظر رکھنے سے ہی دنیا آج ترقی یافتہ کہلا رہی ہے ۔تعلیم و تربیت کے بغیر انسان کا اس دنیا میں کردار محدود ہوجاتا ہے ۔خالقِ کائنات بار بار اپنی کتاب میں اانسان کو غور و فکر کی دعوت دیتا ہے ۔ہائر ایجوکیشن کمیشن پاکستان کے زیر سایہ منعقد اس مکالماتی نشست کا مقصد اب تک ملک میں اعلی تعلیم کے شعبے کی جانی والی کوششوں پہ نظر ڈالتے ہوئے آئندہ پیش آنے والے وقت کے لیے تجاویز پیش کیا جانا اور پھر ملک بھر سے آئے علم و دانش کے نمائندوں سے اعلی تعلیم کے لیے مشاورت کا سلسلہ تھا ۔اس باوقار تقریب کے میزبان وائس چانسلر گجرات یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر ضیاء القیوم تھے ۔ڈاکٹر ضیاء القیوم نے ہائر ایجوکیشن کمیشن پاکستان کے پندرہ سالوں پہ بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ ادارہ ان گزرے سالوں میں اپنی کامیابیوں کی وجہ سے ایک درخشاں قومی ادارے کی حثیت حاصل کر چکا ہے ۔ادارے قوموں کی تاریخ میں عہد ساز کردار ادا کرتے ہوئے سماجی ترقی کا ہراول دستہ ثابت ہوتے ہیں ۔HEC نے اپنی تعلیمی ٟتدریسی اور تحقیقی کوششوں سے ملکی تعلیمی منظر نامے کو مثبت سمت عطا کرنے میں اپنا اہم کردار ادا کیا ہے ۔ آ ج کا طالب علم روشن مستقبل کی جانب چل پڑا ہے اور یہ روشنی بہت جلد ملک میں پھیلے جہالت کے اندھیروں کو دور کرنے کا سبب بنے گی ۔اسی وجہ سے ایچ ای سی کو ملک میں علم کے قافلے کا سالار کہا جاتا ہے ۔ایچ ای سی کے چیئرمین ڈاکٹر مختار احمد نے بات شروع کرتے کہا کہ ہم جو اس وقت آواری ہوٹل کے ٹھنڈے ماحول میں نشست جمائے بیٹھے ہیں ہم میں سے بہت سوں نے ٹاٹ سکولوں سے ہی اپنا تعلیمی سفر شروع کیا تھا ۔ آج کے دور کو سائنس کی ترقی کا دور کہا جاتا ہے ۔انہوں بے بتایا کہ ایچ ای سی نے ملک بھر 188 یونیورسٹیوں کا جال پھیلایا دیاہے ۔ایچ ای سی کی کوشش ہے کہ ملک کے ہر ضلع میں کم از کم ایک یونیورسٹی ہو ۔ طالبات کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے ۔اسی لیے ایچ ای سی کوشش کررہا ہے کہ اگلے دس سالوں تک ملک میں یونیورسٹیوں کی تعداد تیں سو تک کر دی جائے ۔ تاکہ ہر طالب علم کو گھر کے نزدیک اپنے ضلع میں معیاری تعلیم ملنے لگے ۔ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں ملک کے بجٹ میں تعلیم کے شعبے کو ہمیشہ نظر انداز کیا جاتا رہا ہے ۔ہماری سابقہ حکومتیں تعلیم کووہ اہمیت نہ دے سکیں جو دنیا چاہیے تھا ۔مگر اب ملکی بجٹ میں تعلیم کے لیے بہت کچھ رکھا جارہا ہے ۔جس کے نتائج مستقبل قریب میں نظر آنے شروع ہوجائیں گے ۔آج ہائر ایجوکیشن کمیشن تعلیم و تدریس کے معیار کو بہتر کرنے کے لیے جامع پالیساں بنا رہا ہے ۔نئے بھرتی ہونے والے لیکچرار کے لیے پہلے تدریسی کلاسیں میں شرکت کا عمل شروع کیا جارہا ہے۔ ہم نے پچھلی غلطیوں سے سیکھتے ہوئے آگے بڑھنا ہے۔ مستحق اور محنتی طلبا کے لیے وظائف ڈیجیٹل ریسورسز ‘ڈیجیٹل لائبریریوں‘سمارٹ یونیورسٹیوں اور انکوبیشن سنٹروں کی تشکیل پر خصوصی توجہ دی جارہی ہے ۔مستقبل قریب میں کچھ ممالک کے ساتھ طلبا ایکسچینج پروگرام کے تحت ہمارے طلبا کچھ وقت کے لیے ان ممالک میں تعلیم حاصل کریں گے اور وہاں کے طلبا ہماری یونیورسٹوں میں زیر تعلیم رہیں گے ۔جس سے طلبا کو دوسرے ممالک کے تعلیمی نظام کو سمجھنے میں خاطر خواہ مدد ملے گی۔دوران بحث ملک کے نامور صحافیوں اور دانشوروں نے ایچ ای سی کی جانب سے کی جانی والی کاوشوں کا سراہتے ہوئے کچھ مشورے بھی دئیے اور کہاکہ ملک میں تعلیم کے نام پر دکانداری کا رجحان بڑھ رہا ہے ۔بہت سی یونیورسٹوں میں تعلیمی نظام پر سوالیہ نشان ہیں ۔طلبا کو پڑھانے والے لیکچرار کو کلاس میں لیکچر دینا ہی نہیں آتا ۔بہت سے تعلیمی اداروں میں نمبرنگ کی کرپشن بھی ہو رہی ہے ۔جس پر ایچ ای سی کے چیئرمیں ڈاکٹر مختار احمد نے بتایا کہ ان کی نظر ایسی یونیورسٹوں پر ہے ۔بہت سوں کو وارننگ دی جاچکی ہے ۔بہتری نہ ہونے کی صورت میں ایسے ادارے بند کروا دئیے جائیں گے ۔سوال و جواب کے سیشن میں چیئرمین ایچ ای سی ڈاکٹر مختار احمد نامور صحافیوں اور دانشورں کی طرف سے ملک میں تعلیمی مستقبل کو حوالے سے کی جانی والی کوششوں سے آگاہ کرتے رہے ۔اس کے بعد پرتکلف لنچ کا اہتمام کیا گیا تھا ۔کھانے کے دوران بھی ملکی تعلیمی پالیسیوں پہ بات چیت جاری رہی ۔اس عملی و فکری نشست میں ڈاکٹر مہدی حسنٟامجد اسلام امجدٟسجاد میرٟڈاکٹر صغرا صدفٟاسلم ڈوگرٟحبیب اکرمٟعمران خانٟقاسم علی شاہٟحفیظ اللہ نیازیٟڈاکٹر مجاہد منصوریٟسلما ن عابدٟنجم ولیٟشاید محمود ندیمٟنیلم احمد بشیرٟنزاکت شکیلہٟایثار راناٟظہیر الدین بابر ٟلطیف چوہدری اور مجھ سمیت کئی نوجوان قلم کار شامل رہے۔ہر کسی نے ایچ ای سی کے تعلیمی ترقی کے اقدامات کو سراہا۔اور ملک کے اعلی تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کے لیے ہر فورم پر مشاورت کے لیے حاضری کا عہد کیا۔

آج سے تیس پینتیس سال پہلے ملک میں پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی تعدا د انگلیوں پہ گنی جاسکتی تھی۔ آج گلی محلوں میںتعلیمی ادارے قائم ہورہے ہیں ۔ طلبا کو اچھا ماحول مل رہا ہے ٟنہ ان اداروں کے پاس کھیل کے میدا ن ہوتے ہیں ۔بچے ہر وقت پتھر کے ماحول میں پیسہ کمانے کی سوچ میں مگن ہورہے ہیں ۔اس لیے ان کے اندر ہیجان بڑھ رہا ہے ۔اس طرف ایچ ای سی اور حکومت کے بااختیار لوگوں کو جلد توجہ دینی ہوگی ۔تعلیمی اداروں کا ماحول اچھا ہوگا تو بچوں کی تربیت درست سمت میں ہوگی ۔ملک کا مستقبل روشن ہوگا۔ڈاکٹر مختار احمد کا کہنا بالکل بجا ہے کہ دورِ حاضر میں اختراع و جدت کی بنیاد پر طلبا میں تحقیقی رجحانات کا فروغ قومی فریضہ بن چکا ہے ۔ایسا کرنے سے ہی ہم ایک امن پذیرٟترقی یافتہ اور انصاف پسند جمہوری معاشرہ قائم کرسکیں گے۔ بے شک تعلیم و تربیت کا مربوط نظام ہی گروہوں میں بکھرے ہوئے لوگوں کو ایک مہذہب معاشرہ تشکیل دینے میں مدد کرتا ہے ۔

ای پیپر دی نیشن