پڑھائی سے بھاگتے بچے

عیشتہ الرّاضیہ
مالک کائنات نے ہر بچے کو یکساں ذہنی استعداد کار کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ ہر بچہ دماغی اعتبار سے ذہین فطرت کا ملک ہے مگر اس ذہانت کا استعمال وہ اپنے من پسندیدہ امور میں ظاہر کرتا ہے۔ کچھ بچے پڑھائی شوق و لگن سے کرتے ہیں اور سکول جانا انہیں سب سے زیادہ پسند ہے۔ ایسے بچوں کو جب گرمیوں کی چھٹیاں ہوتی ہیں تو وہ اداس ہو جاتے ہیں کہ کس طرح وہ یہ تین مہینوں کی چھٹیاں گزاریں گے۔ یہ سکول کھلنے کا انتظار انگلیوں پر گن کر گزارتے ہیں اور جب سکول کھلتا ہے تو ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہیں ہوتا ۔ یہ نونہال سکول میں بھی نمایاں نمبرز حاصل کر کے اساتذہ کی نگاہ میں قدر پا لیتے ہیں اور ایسے بچوں سے سبھی اساتذہ خوش نظر آتے ہیں جو انہیں پڑھائی میں تنگ نہیں کرتے۔ ان کا ہوم ورک مکمل اور انہیں تمام سبق ازبر یاد ہوتا ہے۔ ایسے بچے طبیعت کے لحاظ سے بھی نرم اور سلجھے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ ایسے بچے کلاس روم کا نظم و ضبط قائم رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں اور ان کی تمنّا ہوتی ہے کہ انہیں کبھی نظم و ضبط توڑنے پر ٹیچر کی ناگواری کا سامنا نہ کرنا پڑے کیونکہ اس طرح کے نونہال حساس بھی واقع ہوئے ہیں، استاد کی ناگواری ان کے لئے باعث شرمندگی واقع ہوتی ہے لہذا ان کی پوری کوشش رہتی ہے کہ ان سے استاد کو کبھی بھی کسی قسم کی شکایت نہ ہو۔
جبکہ ان بچوں کے برعکس ایسے نونہال بھی ہیں جن کا زیادہ رجحان کھیل کود کی طرف رہتا ہے۔ جبکہ یہ اپنی پڑھائی پر کم توجہ دیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے استاتذہ اور والدین دونوں ہی کو ایسے نونہالوں پر اضافی محنت درکار ہوتی ہے تاکہ یہ امتحانات میں کامیابی حاصل کر سکیں۔ یہ کھیل کے میدان اور دوسری ان ڈور گیمز کی سرگرمیوں میں سب سے آگے ہوتے ہیں مگر سکول جانے کے معاملے میں یہ کافی چور واقع ہوئے ہیں۔ ایسے بچوں کو روز سکول کے لئے اٹھانا والدین کے لیے کسی جنگ سے کم نہیں۔ ہر روز یہ کوئی نہ کوئی بہانہ لگاتے پائے جاتے ہیں بچوں کا ایک انتہائی مقبول بہانہ یہ ہوتا ہے کہ پیٹ میں درد ہو رہا ہے اور یہ درد تب تک نہیں جاتا جب تک سکول جانے کا وقت ختم نہ ہو جائے۔ اسی طرح اگر رات بھر بارش ہوتی رہے تو ان بچوں کی ایک خاص دعا ہوتی ہے کہ یہ بارش صبح سکول جانے تک ختم نہ ہو اور جب صبح آنکھ کھلتی ہے تو چمکتا ہوا سورج اور صاف آسمان انہیں ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ نونہالوں کی یہ قسم ہوم ورک کرنے میں بھی والدین کو ستاتی ہے یہی وجہ ہے کہ اکثر والدین بچوں کو ہوم ورک کروانے کے لیے ایک ٹیوٹر یا ٹیوشن لگوا دیتے ہیں تا کہ ان کا ہوم ورک مکمل ہو سکے ۔چھٹّی کے بعد اگلے دن سکول میں استاتذہ کے سامنے ان کے پاس بے شمار دلچسپ بہانے بھی سننے کو ملتے ہیں۔ کچھ کا کہنا ہوتا ہے کہ ’’ مس ہماری کام والی نے صفائی کے وقت سکول بیگ پتہ نہیں کہاں رکھ دیا جس کی وجہ سے ہم کل سکول نہیں آسکے۔ کچھ یہ عرض کرتے ہیں کہ امّی سے سکول کا یونیفارم استری کرتے ہوئے جل گیا چنانچہ چھٹّی کرنی پڑی آج نیا یونیفارم پہن کر آئے ہیں۔ اکثر کے ہاں اچانک کوئی شادی آ جاتی ہے یہ وہ تمام بہانے ہیں جو کبھی ہم نے بھی آزمائے تھے۔ آج یاد آتے ہے تو اپنی نادانی پر ہنسی آتی ہے۔
مگر والدین کو یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ آخر وہ کیا وجوہات ہیں کہ جن کی وجہ سے ان کے بچے پڑھائی سے بھاگتے دکھائی دیتے ہیں اور کس طرح ایسے نونہال کی تعلیم میں دلچسپی کو بڑھایا جائے۔ انہیں پڑھانے کے لئے کچھ طریقوں کو اپنایا جائے مثلاً اگر ان کا رجحان کھیل کود کی طرف ہے تو کھیل ہی کھیل میں انہیں سبق یاد کروایا جائے۔
انہیں کتاب کا سبق کہانی کی طرح سنایا جائے کہ جس کو سنتے ساتھ ہی بات ان کے ذہن نشین ہو جائے۔ سکول میں اساتذہ بجائے اس کے کہ ہر بات پر انھیں ڈانٹے، ان کی ہر چھوٹی سے چھوٹی اچھی کاوش کی تعریف کریں۔اس طرح سراہنے سے ان میں پڑھنے کا جذ بہ پیدا ہو گا۔
اگر انھیں کچِّا سبق یاد ہے توتب بھی انھیں ڈانٹنے اور جھڑکنے کے بجائے ان کی سبق یاد کرنے کی کاوش کو سراہا جائے اس طرح ان میں خود اعتمادی بڑھے گی اور یہ اگلے دن اس سے زیادہ اچھا سبق یاد کر کے آئیں گے۔ سکول میں ایسے بچوں کے لئے جن کی حاضری سب سے زیادہ ہو ہر ماہ کوئی انعام مقرر ہونا چاہیے تاکہ ان کو دیکھ کر کم حاضری والے بچوں میں بھی باقاعدگی کے ساتھ سکول جانے کی خواہش بیدار ہو سکے۔ یہ چند تجاویز اگر اپنا لی جائیں تو ہو سکتا ہے کہ بچوں کا پڑھائی سے بھاگنے کا رجحان کم ہو جائے۔

ای پیپر دی نیشن