خطرے کی گھنٹیاں

ن لیگ اور پیپلزپارٹی کی کرپشن اور نااہلیوں سے تنگ آکر لوگوں نے عمران خان کو ووٹ دیا تھا کہ شاید قوم کا مقدر جاگ جائیگا اور ملک کا مستقبل سنور جائیگا لیکن دو ماہ کے بعد ہی عوام میں مایوسی، ناامیدی اور ناپسندیدگی کے جذبات ابھر آئے۔ جس تبدیلی کیلئے عوام نے جوش و خروش سے ووٹ د یا تھا وہ ’’تبدیلی‘‘ تو نہیں آئی البتہ عوام میں ’بددلی‘‘ ضرور آگئی ہے۔ عوام کے سر پر مہنگائی کا بم گرا کر نئی حکومت نے اپنے پاؤں پر کلہاڑی ضرور مار لی ہے۔ لوگ بہت ناراض اور دلبرداشتہ ہیں۔ بجلی، پانی، گیس، پٹرول، تیل اور اشیائے خوردنی میں دگنا نہیں، دس گنا زیادہ اضافہ ہو گیا ہے۔ لوگ بے پناہ مہنگائی سے عاجز اور ہراساں ہو گئے ہیں کسی کے ذرائع آمدن میں پھوٹی کوڑی اضافہ نہیں ہوا لیکن انکے سر پر دس گنا مہنگائی مسلط کر کے حکومت نے اپنے لئے شدید قسم کی ناپسندیدگی بلکہ نفرت پھیلا لی ہے۔ لوگ عمران خان سے بہت زیادہ بدظن ہو رہے ہیں کیونکہ مہنگائی نے انہیں ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ہر شخص نالاں اور چڑچڑا ہے۔ صرف دو ماہ میں ریٹ آسمانوں سے باتیں کر رہے ہیں۔ ڈالر جس قدر مہنگا اور روپیہ جس قدر سستا ہوا ہے یہ ملکی تاریخ کی بدترین مثال ہے۔ سونا پاکستان کی تاریخ میں اس قدر مہنگا ہوا ہے کہ مڈل کلاس آدمی کی دسترس سے باہر نکل گیا ہے۔ بجلی، پٹرول اور تیل کی قیمتیں برداشت سے باہر ہو گئی ہیں۔ دو روپے کی روٹی آٹھ روپے کی ہو گئی ہے۔ لوگوں کیلئے پیٹ پالنا عذاب بن گیا ہے۔ ہر چیز کو آگ لگ گئی ہے۔ ہر شخص عاجز ا ور غضبناک نظر آرہا ہے۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا ہے حکومتی فیصلے قوم میں مایوسی اور غصہ پھیلا رہے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ لوگوں کی توقعات ٹوٹ رہی ہیں اور ان میں غم و غصہ بڑھ رہا ہے۔ وزیراعظم کے مشیر ڈاکٹر عشرت حسین نے کہا ہے کہ پاکستان میں 35 لاکھ افراد میں سے صرف 2 لاکھ ٹیکس دیتے ہیں۔ 22 لاکھ کی آبادی پر مشتمل ملک کا ہر فرد ٹیکس ادا کر رہا ہے حد تو یہ ہے کہ فقیر تک ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ گندے پانی کے دو گھونٹ تک پر تو ہم ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ کل ہم ہرن مینار گئے۔ واپسی پر غلط سڑک پر نکل آئے اور محض دو گھنٹے میں موٹر وے پر ہمیں چار جگہ پانچ سو روپے ٹیکس ادا کرنا پڑا۔ موٹروے اور جی ٹی روڈ پر ایک دن میں لاکھوں گاڑیاں گزرتی ہیں اگر ہر گاڑی لاہور سے اسلام آباد سات سو روپے ٹیکس ادا کرتی ہے اور روزانہ 20 لاکھ گاڑیاں گزرتی ہیں تو اندازہ لگا لیں کہ حکومت کے خزانے میں روزانہ کتنا پیسہ جاتا ہے۔ موٹروے ہو یا جی ٹی روڈ کہیں نہ تو لائٹس لگی ہیں اور نہ ہی سڑکوں کی مرمت یا صفائی کا کام ہوتا ہے اربوں روپے آمدن میں سے کچھ خرچ کرنا پڑتا ہو سوائے ملازمین کو واجبی تنخواہوں کی ادائیگی کے۔ اسی طرح پاکستان میں پانچ مرلے سے لیکر چار کنال کے گھروں پر باقاعدگی سے ہر سال ٹیکس ادا کرنا پڑتاہے ۔ ہم جیسے پڑھے لکھے اور مصروف لوگ ہر سال اپنی حق حلال کی کمائیوں سے بیٹھ کر وضاحتیں دیتے ہیں کہ ہم نے اپنا گھر اور گاڑیاں کن ذرائع آمدن سے خریدی ہیں۔ اگر کوئی ٹیکس کی ادائیگی نہ کرے تو اس کا گھر، دفتر، سکول، کالج سیل کر دیا جاتا ہے۔ گاڑی خریدنے سے لیکر چلانے اور پھر بیچنے تک ٹیکسوں کی ادائیگیاں کرنی پڑتی ہیں۔ ایک پانی کی بوتل خریدیں یا برگر… اس پر بھی ہم ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ تنخواہوں پر ٹیکس، چیک نکلوانے، جمع کروانے پر ٹیکس۔ پراپرٹی خریدنے، بیچنے پر ٹیکس لیکن سو کنال، تین سو کنال اور ایکڑوں پر پھیلے گھروں، فارم ہاؤسوں، یونیورسٹیوں، چیلنز پر کوئی ٹیکس عائد نہیں ہوتا۔ اسکی سب سے بڑی مثال نواز، شہباز، زرداری، فضل الرحمان، اچکزئی اور خود عمران خان ہیں۔ جہاں تک عمران خان کا تعلق ہے وہ ابھی تک زبانی جمع خرچ کر رہے ہیں۔ لوگ ابھی تک صرف تقریریں، بیانات اور باتیں ہی سن رہے ہیں ابھی تک ایک وعدہ وفا ہوتے نہیں دیکھا۔ لوگ سابق حکومتوں کی کرپشن سے تنگ تھے۔ عمران خان کے لہلہاتے سبز باغوں میں زندگی کی لہر نظر آرہی تھی لیکن عمران خان نے بھی سابقہ حکومتوں کی روش اپنا لی۔ اب نتیجہ یہ ہے کہ لوگ بری طرح بدظن ہو گئے ہیں۔ ابھی تک کی کارکردگی تو صفر ہے۔ الٹا ہمیں مہنگائی اور ٹیکسوں میں جکڑ دیا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ نئی سڑکیں، پل، ہسپتال، یونیورسٹیاں کیا بنائینگے۔ زیر تعمیر سڑکیں تک مکمل نہیں کرائی ہیں بلکہ ٹوٹی ہوئی سڑکوں کی مرمت تک نہیں کرائی ہے۔ آئی ایم ایف سے قرضے مانگنے پہنچ گئے۔ عمران خان کیلئے پچاس لاکھ گھر اور ایک کروڑ نوکریوں کا بہلاوہ حکومت کیلئے مشکل بن رہا ہے۔ سب سے بڑا خطرہ آصف زرداری کا بیان ہے۔ انہوں مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ نئی حکومت ملک نہیں چلا سکتی۔ اپوزیشن متفقہ قرارداد لائے گی اور حکومت جائیگی۔ ہم آصف زرداری کو جو چاہے برا کہیں لیکن انہوں نے جب بھی جو کہا… وہ کر کے دکھایا ہے۔ بہرحال عمران خان کے سر پر خطرے کی گھنٹیاں بج رہی ہیں۔ لوگ مہنگائی سے مر رہے ہیں۔ اپنی آنکھیں کھولیں، خطروں کو پہنچانیں، خطروں کو ٹالیں۔

ای پیپر دی نیشن