یہ کالم میرے اوپر ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی کا قرض تھا۔ وہ میرے محسن تھے۔ لاکھوں دیگر طالب علموں کے محسن ہیں ۔ شاید کالم نگار اور اینکر جاوید چودھری کے بھی محسن ہیں کہ انہوں نے ڈاکٹر صاحب کے بارے میں مجھ سے زیادہ کالم تحریر کئے ہیں اور انتہائی جذباتی انداز میں انہیں خراج تحسین پیش کیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب جدید صحافت کے معمار اور محسن ہیں کہ ان کے ادارے نے صحافت کی نئی جہتیں متعارف کرائیں۔ دنیا میں صحافت کے شعبے اچھے صحافی پیدا کرتے ہیں مگر ڈاکٹر صاحب کے جریدوں سے صحافیوں کی ایک کھیپ کی کھیپ نکلی اور وہ آج کی صحافتی کہکشاں میں چمکنے دمکنے لگی میں نے چند ماہ قبل ڈاکٹر صاحب کے کاروان علم پر ایک کالم تحریر کیا۔ڈاکٹر صاحب نے نہائت عجز و انکسار ی سے کہا کہ میں ان کی نیکیوں کا تذکرہ نہ کیا کروں کہ اس طرح نیکیاں ضائع جانے کا خدشہ ہے وہ شہرت اور پبلسٹی سے دور بھاگتے ہیں میں ہار ماننے والا کہاں تھا کہ آخر ان کا شاگرد تھا۔ میں نے ان کے چند دیگر کارناموں کا ذکر کیا کہ کس طرح انہوں نے آزادی صحافت کی جنگ انتہائی جرات ا ور بے باکانہ انداز میں لڑی۔ وہ بول پڑے جیسے طوطا بولتا ہے ۔ انہوں نے پہلی جیل یاترا کا قصہ سنانا شروع کردیا۔ یہ بھٹو کے سول مارشل لا کے ابتدائی دن تھے۔ زیڈ اے سلیری کو فکس اپ کیا جا چکا تھا اور اب نشانے پر ڈاکٹر اعجاز قریشی، الطاف قریشی اور مجیب شامی تھے۔ بھٹو بعد میں بابائے جمہوریت کہلائے اور پھانسی پانے کے بعد ہر گھر سے جنم لینے لگے مگر بھٹو نے پہلے پہل تو جبر کا راستہ اختیار کیا۔ مارشل لا کے اختیارات ہاتھ میں ہوں تو پھر جمہوری اقدار کا کون خیال کرتا ہے اورآزادی صحافت کی کون قدر کرتا ہے۔ متذکرہ بالا اصحاب کو ملٹری کورٹ میں پابجولاں لایا جاتا اور ایک روز پیپلز ہاﺅس کے ایک ویران سے کمرے میں کسی کم سن فوجی ا فسر نے میز کی درا زکھولی ۔ ایک ٹائپ شدہ فیصلہ پڑھ کر سنایا۔ کروڑوں کے جرمانے اور طویل قید و بند۔ ڈاکٹر صاحب بتاتے ہیں کہ وہ کوٹ لکھپت جیل پہنچے تو وہاں کا سپرنٹنڈنٹ حمیدا پستول ان کی کوٹھری میں آیا اور ہنس کر کہنے لگا کہ ڈاکٹر صاحب آپ تو یونیورسٹی میں تاریخ کے ایک استاد تھے، سیاست کی دلدل میں پھنس کر جیل کیوں آن پہنچے۔ ڈاکٹر صاحب کے منہ سے بے ساختہ ایک جملہ نکلا کہ کچھ استاد تاریخ پڑھاتے ہیں اور کچھ استاد تاریخ بناتے ہیں۔ مجھے ڈاکٹر صاحب نے یہ فقرہ چند ماہ قبل ٹیلی فون پر سنایا تو میںنے کہا کہ اب ایک اور کالم مجھ پر واجب ہو گیا اور کسی روز آپ کا یہ قرض اتاروں گا۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ میں یہ قرض کیسے اتاروں ۔ لکھنے کا کوئی بہانہ تو ہونا چاہئے۔ خدا واحد شاہد ہے کہ میرے ذہن میں بھی نہیں تھا کہ کسی روز کچھ اور استادوں کو ہتھکڑیاں لگیں گی اور یہ کالم جومجھ پر قرض تھا ، اب فرض ہو جائے گا۔ پنجاب یونیورسٹی اس علاقے کی ہی نہیں ، دنیا کی ممتاز یونیورسٹیوں میں اس کا شمار ہوتا ہے۔ پروفیسر حمید احمد خاں، علامہ علاﺅالدین صدیقی، پروفیسر شیخ امتیاز، ڈاکٹر خیرات ابن رسا، ڈاکٹر منیر الدین چغتائی، ڈاکٹر رفیق احمد اور پھر ڈاکٹر مجاہد کامران اس کے وائس چانسلر بنے۔ یہ بڑے نام تھے، نامی گرامی اہل علم و فضل تھے۔ مجھے علم کا پہاڑ اور استادوںکا ایک استاد یاد آرہا ہے۔ دینا کا پہلا استاد جسے موت کی سزا کا سزاوار سمجھا گیا۔ یہ تھا سقراط جو افلاطون کا استاد تھا اور افلاطون ارسطو کا استادا ور ارسطو اسکندراعظم کا استاد تھا۔کوئی گناہ تو یونان کے محتسب نے سقراط پر تھوپا ہو گا جس کی پاداش میں اسے موت کی سزا سنا دی گئی۔ سقراط کے سامنے زہر سے بھرا پیالہ رکھا گیا ، محتسب نے حکم دیا کہ ا سے پیو تاکہ یونان کی دھرتی تمہارے وجود سے پاک ہو سکے۔ سقراط نے ایک لمحے کی تاخیر نہ کی اور ایک تاریخ رقم کر دی کہ اس دنیا میںکسی استاد کو بھی موت کی سزا بھی ہو سکتی ہے۔ اشفا ق احمد کہتے ہیں کہ وہ بیرون ملک تھے کہ ان کا ٹریفک خلاف ورزی پر چالان ہو گیا۔ انہیں ایک جج کے سامنے پیش کیا گیا جسے جرم کی نوعیت کے اعتبار سے سزا سنانے کا اختیار تھا، جج نے ملزم سے پیشہ پوچھا تو اشفاق احمد نے پنا تعارف کرایا کہ وہ اپنے ملک میں استاد کے منصب پر فائز ہیں تو جج اپنی کرسی سے نیچے اترا۔ ہاتھ جوڑکر معافی مانگی کہ حضرت! ہماری پولیس سے گستاخی ہوگئی۔ ہم استاد کی بے حرمتی نہیں کر سکتے۔مگر اب پنجاب یونیورسٹی کے ایک وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران کو نیب نے گرفتار کیا، ہتھکڑیاںلگائیں اور عدالت میں پیش کیا۔ ہتھکڑیاں لگانے والے کس قدر سادہ تھے کہ ایک پی ایچ ڈی کے ساتھ اس بد سلوکی کا مظاہرہ کر ڈالا۔ملک کا باشعور طبقہ بلبلا اٹھا۔ ڈاکٹر مجاہد کامران پر الزام کیا تھا کہ نوکریاں دیں۔ کچھ عرصہ قبل وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو سزا ہوئی کہ انہوںنے نوکریاں دی ہیں ۔انہوںنے سزا تو بھگت لی مگر ہمیشہ کہا کہ پھر موقع ملا تو نوکریاں دینے کا جرم کرتا رہوں گا۔ اس لئے کہ ارباب اختیار نوکریاں دینے کے لئے ہوتے ہیں، نوکریاں چھیننے کے لئے نہیں اور ڈاکٹر مجاید کامران کے ساتھ درجنوںدیگر اساتذہ کو بھی ہتھ کڑیاں لگیں۔ کیا ان کا جرم بھی یہی تھا کہ وہ ڈاکٹر مجاہد کامران کے شریک جرم تھے۔ یہ جرم قابل تعزیر کب سے بن گیا۔ آج کے تو وزیراعظم کا ایجنڈہ ہے کہ وہ ایک کروڑ لوگوں کو نوکریاں دیں گے۔ مجھے حیرت اور تشویش ا س بات پر نہیں کہ ڈاکٹر مجاہد کامران کوہتھ کڑی لگی بلکہ حیرت اور تعجب اس بات پر ہے کہ اتنی تاخیر سے کیوں لگی۔ انہیں تو دس بارہ برس قبل ہتھ کڑی لگ جانی چاہئے تھی اور نیب کے بجائے انہیں گوانتا نامو بے کے بد نام زمانہ عقوبت خانوں میں بند کیا جا نا چاہئے تھا کیونکہ انہوںنے ایک تحقیقی کتاب لکھ کر ثابت کیا تھا کہ نائن الیون ایک خود ساختہ ناٹک تھا جس کی آڑ میں امریکہ نے عالم اسلام پر ظلم کے پہاڑ توڑے۔ ڈاکٹر مجاہد کامران کا جرم یہ ہے کہ وہ جہالت سے آلودہ معاشرے میں درجنوں تحقیقی کتابوں کے مصنف ہیں۔ یہ کتابیں سائنسی موضوعات پر لکھی گئیں۔ یورپ نے تو اپنے سائنس دانوں کو عقوبت دے کر ہلاک کرنے کی رسم ڈالی تھی۔ ہم نے ڈاکٹر عبدالقدیر جیسے سائنس دان کو ٹی وی اسکرینوں پر رسوا کیا اور ناکردہ گناہوں کی معافی مانگنے پر مجبور کیا یہ نیک کام ایک فوجی ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف نے کیا۔ اسی فوجی ڈکٹیٹر نے نیب کاوہ کالا قانون بنایا اور جلد بازی میں بنایا جس کے تحت ڈاکٹر مجاہدکامران کو ہتھ کڑی لگائی گئی۔ ڈاکٹر عبدالقدیر سے ہم نے جو سلوک روا رکھا،ا سکے بعد ڈاکٹر مجاہد کامران پر تو بہت ہولا ہاتھ رکھا گیا۔ خود مشرف ہوتا تو انہیں نائن الیون کا پردہ چاک کرنے پر ایک پنجرے میں بند کر سکتا تھا اور ٹی وی اسکرینوں پر بٹھا کر پوری قوم سے معافی مانگنے کا حکم دے سکتا تھا۔ اس سے کچھ بعید نہ تھا۔ موجودہ نیب نے تو صرف ہتھکڑی لگائی۔ ان ہاتھوں میں زنجیریں پہنائیں جن سے ڈاکٹر صاحب نے ایک درجن تحقیقی کتابیں لکھیں۔مجھے شبہہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے جرائم کی فہرست میں یہ تصانیف بھی ضرور شامل ہوں گی۔ مجھے میرے ایک دوست ڈاکٹر جاوید اقبال ندیم نے بتا یاہے کہ انہیں بھی پچھلے دنوں کسی ناکردہ جرم میں چند دیگر اساتذہ کے ہمراہ حوالاتوں میں بند کیا گیا۔ ڈاکٹر ندیم نے فلسفے پر پی ایچ ڈی کی ہے۔ بھلا اس قوم کو سائنس اور فلسفے سے کیا سروکار۔ ایسے لوگوں کے چالان کا اختیار تو ٹریفک پولیس کو دے دینا چاہئے۔ سقراط ایک استاد تھا، اسے سزا ہوئی، ڈاکٹر اعجاز قریشی ایک استاد تھے۔ انہیں سزا ہوئی۔ ڈاکٹر مجاہد کامران بھی ایک استاد ہیں یہ جرم ناقابل معافی ہے۔ وہ ہتھکڑیوں ہی کے لائق تھے۔کچھ استاد تاریخ پڑھاتے ہیں،۔ کچھ تاریخ بناتے ہیں ۔ سقراط سے لے کر اعجاز قریشی ا ور مجاہد کامران تک سب نے تاریخ رقم کی یہ قابل فخر، قابل قدر اور قابل رشک تاریخ ہے۔
٭٭٭٭٭