سوشل میڈیاکا نشہ

کیا آپ سوشل میڈیا سے دور ہونا چاہتے ہیں اگر غور کریں بہت سارے مسائل کی جڑ سوشل میڈیا پر ضائع ہونے والا وقت ہے یہ وہ ٹائم ہے جس میں پرانے زمانے کا انسان دنیا جہان کے کام دھندے نمٹا لیتا تھا بلکہ اپنی فیملی کو بھی وقت دے پاتا تھا آپ نے آخری مرتبہ کوئی کتاب ڈسٹرب ہوئے بغیر ایک ہی تسلسل کے ساتھ کسی بھی نوٹیفیکشن کی آواز کے بغیر کب پڑھی تھی بلکہ اب تو یہ پوچھنا بہتر ہو گا کہ کتاب پڑھنے کا خیال بھی کیا کسی ای بک کو دیکھ کر آیا برقی کتاب کی سب سے بڑی غلط فہمی ہمیں یہ ہے کہ ’’اس نے پڑھ بھی لی ایسا نہیں ہوتا کتاب پڑھنا وقت مانگتا ہے اور وقت سارا کا سارا ہم لوگ فیس بک انسٹا وٹس ایپ ٹیوٹر کو سونپ چکے ہیں مجھے یاد ہے جب ہم لوگ چھوٹے تھے تو سارے بچے شام کو گلیوں میں خوب سائیکل چلاتے بھاگنے دوڑنے والے کھیل کھیلتے فٹبال اور کرکٹ کھیلتے جس سے بہت پسینہ آتا لیکن آج کے بچے چھوٹی عمر میں ہی سوشل میڈیا کی نذر ہو جاتے ہیں کبھی سوچا ہے اصل مسئلہ کہاں ہے سوشل میڈیا کی علت کا شکار ہونے والے 9 فیصد لوگ موبائل یا ٹیبلٹ پر اسے استعمال کرتے ہیں کمپیوٹر اور لیپ ٹاپ کے زمانے میں بھی صورتحال قدرے بہتر تھی اگر کوئی استعمال بھی کرتا تھا تو رات کو دو ڈھائی گھنٹے بعد چھٹی ہو جاتی تھی اب سوشل میڈیا میں ایسا کیا ہے ادھردو چیزیں ہیں جو ہم سب کو گھمائے ہوئے ہیں ایک سوشل میڈیا کے ایپ دوسرے ٹچ سکرین اگر آپ کچھ دنوں کے لئے فضول ایپس سے دور ہو جائیں تو آپ کو ذہنی سکون حاصل ہو گا کیوں کہ برطانیہ میں ہونے والی تحقیق کے مطابق زیادہ تر لوگوں میں دماغی دباؤ اور بے چینی کی وجہ صرف اور صرف سوشل میڈیا بنے کیوں ہر وقت ہم اور آپ ہر فارغ انسان کے ’’فارورڈ مسیج کا نشانہ بنتے ہیںاور سوشل میڈیا پر جھوٹی خبریں اور افواہیں پھیلانا آسان ہو گیا ہے چند منٹوں اورگھنٹوں میں تیزی کے ساتھ افواہ پھیلا دی جاتی ہے سوشل میڈیا سے پہلے افواہ یا جھوٹ اتنی تیزی سے نہیں پھیلتا تھا اور اب بجلی کی رفتار سے پھیلتا ہے۔
اگر صرف چند دن آپ سوشل میڈیا ایپ کو صرف ضرورت کے طور پراستعمال کریں تو چند دن بعد آپ کو احساس ہو گا کہ آپ کس مصیبت میں پھنسے فضول وقت ضائع کرتے تھے۔سوشل میڈیا کی ایپس کے پیچھے ماہر لوگوں کے ہزاروں دماغ کام کر رہے ہوتے ہیں فیس بک کی ایپ کیا صرف مارک روکر برگ نے اکیلے بنائی تھی نہیں ظاہری بات ہے پوری ٹیم نے مل کر بنائی اور وہ ٹیم بھی اپنی فیلڈ کے ذہین ترین لوگ ہوں گے۔ جب اتنے سارے اعلیٰ دماغ مل کر کوئی چیز بنائیں گے تو کیا وہ اسے عوام کی پسندیدگی کے معیار تک لانے میں کوئی کسر چھوڑیں گے ہو ہی نہیں سکتا اب تو ٹچ موبائل پر سارے معرکے انگوٹھوں سے سرانجام دیئے جا رہے ہیں دماغ جہاں بھی ہو سوچ کدھر بھی ہو لیکن ٹچ سکرین موبائل پر انگوٹھا چلتا رہتا ہے اور وقت برف کی مانند پگھلتا رہتا ہے موبائل صرف ضرورت کے وقت استعمال کریں اور جب چوبیس گھنٹوں کی ٹوں ٹوں بند ہو گی تو خود ہی ذہنی دباؤ سے نجات مل جائے گی اور زندگی پر سکون ہو جائے گی ہر وقت لائک کمنٹ شیئر کے چکر میں رہنا فارورڈ کرنا وہ بھی غیر ضروری چیزوں کو یہی درحقیقت ہمارے سکون کا قاتل ہے۔

ای پیپر دی نیشن