نئی مردم شماری کے مطابق تقریبا ساڑھے پینتس ہزار نفوس پر مشتمل یونین کونسل لنڈی پتافی سات مواضعات موضع لنڈی پتافی ،موضع بھنڈی کورائی ،موضع چھینہ ملانہ ، موضع رکھ چھینہ ملانہ، موضع بیٹ شاہل ،موضع نو برآمدہ اور موضع بھنڈہ مہربان پر مشتمل ہے جس کے چیئرمین سردار رحمت اللہ خان کورائی ہیں جو علاقہ کی ترقی کیلئے اپنی بساط سے بڑھ کر کوشاں ہیں لیکن وسائل کی کمی ترقی کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے انہوں نے ترقیاتی کاموں پر تو خصوصی توجہ دی لیکن کچھ ایسے بنیادی مسائل ابھی تک حل طلب ہیں جو سڑکوں ،سولنگ اور پلیات وغیرہ سے کہیں زیادہ ضروری ہیںان میں سب سے اہم مسئلہ دریائے سندھ کا کٹائو ہے جو ہر سال کروڑوں روپے کی فصلیں ،زمینیںاور غریب لوگوں کے گھر ہڑپ کر رہا ہے لوگ بے گھر ہو رہے ہیں عوام در بدر ہو کر ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیںکچھ جنگل میں اپنے مال مویشیوں کے ساتھ رہائش پذیر ہیں تو کچھ نے نہروں کے کناروں پر جہاں تھوڑی سی جگہ ملی کچے مکان بنا کر بیٹھ گئے ہیںلیکن ہر وقت تجاوزات کے نام پر آپریشن کی خبروں نے دریا کے مارے ان لوگوں کی زندگی اجیرن کردی ہے اس وقت کے تصور سے ہی ان کی رات کی نیند اور دن کا چین اڑ جاتا ہے کہ کب حکومتی اہلکار آئیںگے اور انکے مکان گرا کر انہیں بے گھر کر دیں گے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا حکومت کی ذمہ داری نہیں ہے کہ دریائے سندھ کے کٹائو کو روکنے کیلئے اقدامات کرے؟جو لوگ اس سے متاثر ہو کر بے گھر ہو چکے ہیں ان کو رہنے کیلئے چھت مہیا کرے دریائی علاقوں کے رہنے والوں کا ذیعہ معاش گائے بھینس اور بھیڑ بکریاں ہیں ان کیلئے چراگاہ کا انتظام کرے لیکن حکمرانوں کی سستی ،بے حسی کا یہ عالم ہے کہ دو ہزار دس میں آنے والے سیلاب سے متاثرہ لوگ ابھی تک جنگلوں میں پڑے ہوئے ہیںآٹھ سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود ان کی بحالی و آبادکاری کا کوئی انتظام نہیں ہوا اگر انہیں جنگل سے بے دخل کردیا گیا تو وہ لوگ جاڑے کے موسم میں کہاں جائیں گے اور اپنے سینکڑوں،ہزاروں مویشیوں کو سردی سے بچانے کیلئے کیسے نئی جگہ کا انتظام کریں گے۔
دوسرا سب سے اہم مسئلہ صحت سے متعلق ہے جس میںسر فہرست زیر زمین مضر صحت پانی کا مسئلہ ہے جنرل پرویز مشرف کے دور میں عالمی ادارے سروے کے بعد اس علاقہ کے پانی کو انسانی صحت کیلئے نقصان دہ قرار دے چکے ہیں جس کی بنیاد پر ہر یونین کونسل میں واٹر فلٹریشن پلانٹ لگانے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی لیکن یہ سب صرف کاغذی کارروائی تک محدود رہا۔موضع بھنڈی کورائی میں واٹر فلٹریشن پلانٹ لگانے کیلئے کئی بار سروے کیا گیا جگہ بھی مختص کی گئی لیکن آج تک اس کا قیام عمل میں نہ آسکا۔ اوربھنڈی کورائی کے لوگ مضر صحت پانی پینے پر مجبور ہیںہیپاٹائٹس اور گردے کی بیماریوں میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے درجنوں اموات ہو چکی ہیںاور سینکڑوں مریض مضر صحت پانی کی وجہ سے موت کے منہ میں جانے کے انتظار میں ہیں۔
تیسرا مسئلہ یونین کونسل لنڈی پتافی کے درمیان میں واقع موضع بھنڈی کورائی میں بنیادی مرکز صحت کا قیام ہے ابرار بنیادی مرکز صحت جو لنڈی پتافی کے نام سے منسوب تو ہے لیکن درحقیقت سابق ایم پی اے نے یونین کونسل رام پور کی حدود میں اپنے ڈیرے کے ساتھ اپنے ہی رقبے میں تعمیر کروا دیا حالانکہ رام پور میں پہلے سے ہسپتال موجود تھا جبکہ بھنڈی کورائی میں انیس سو چھیانوے سے ہسپتال کیلئے کئی کنال زمین مختص ہے لیکن ابھی تک اس جگہ ہسپتال تو کجا ڈسپنسری تک نہیں بن سکی موسمی اور وبائی امراض کی بہتات کی وجہ سے بھنڈی کورائی میں بنیادی مرکز صحت کی اشد ضرورت ہے کیونکہ بیلے والہ ،بیٹ میرہزار اور لنڈی پتافی BHU دس دس کلومیٹر دور ہیں حکام بالا اور ایم پی اے pp275سردار خرم سہیل خان لغاری جو وزیر اعلی پنجاب کے معاون خصوصی بھی ہیں اگر تھوڑی سی توجہ اس مسئلہ پر مرکوز فرما دیں تو لوگوں کی صحت سے متعلق یہ دیرینہ مسئلہ بہت جلد حل ہو سکتا ہے ۔صحت وتعلیم کی بہتری کی دعویدار حکومت کو چاہئے کہ ہسپتال نہیں تو بائیس سال سے مختص اس زمین پر ایک ڈسپنسری ہی بنوادیں۔
ساڑھے پینتس ہزار کی آبادی کیلئے پوری یونین کونسل کا اکلوتا گورنمنٹ سیکنڈ شفٹ گرلزہائی سکول بھنڈی کورائی جس کا سب سے بڑا مسئلہ ٹرانسپورٹ کا ہے ۔بیلے والہ، بستی اللہ بخش اور بیٹ میر ہزار کے بڑے پرائیویٹ ادارے بھاری فیسوں کے عوض علاقے میں اپنے اپنے سکولوں کی ٹرانسپورٹ سروس مہیا کررہے ہیں لیکن گورنمنٹ کے اکلوتے گرلز ہائی سکول کی ٹرانسپورٹ سروس نہ ہونے کی وجہ سے ایک توغریبوں کی بچیاں پرائمری کے بعد تعلیم کو خیرباد کہہ دیتی ہیں محکمہ تعلیم پنجاب کے حکام اور ارباب اختیا ر کو چاہئے کہ جس طرح بوائز تعلیمی اداروں میں سکول ٹرانسپورٹ کے نام پر پروگرام شروع کئے گئے ہیں اسی طرز پر دیہات کے گرلز اداروں خاص طور پربھنڈی کورائی گرلز ہائی سکول جو سات مواضعات کا اکلوتا گرلز ھائی سکول ہے کو سکول ٹرانسپورٹ کیلئے بس مہیا کی جائے ۔
دریائے سندھ کے کٹاؤں کو روکنے کیلئے اقدامات کی ضرورت
Oct 23, 2018