لگتا نہیں کہ حکومت یا حزب اختلاف کسی بھی دھرنے ورنے میں سنجیدہ ہے ۔ بڑی جماعتیں مولانا کو سڑک پر تقریباً چھوڑ کر بھاگ چکی ہیں اور احتجاجی تحریک میں شمولیت کو ’’علامتی ‘ ‘ اور ؔدرجہ دوم ‘‘ کی لیڈر شپ کی شمولیت تک محدود کردیا ہے جو حکومت کی لئے خوشی کی خبر ہے ۔ جب شہباز شریف تنقید کرتے ہیں حکومت پر تو وہ بقول حکومتی وزراء کے سب سے کرپٹ شخص ہوتے ہیں اور جب دھرنے کی بلاواسطہ مخالفت کرتے ہیں ’’شہباز شریف صاحب ‘‘ کا لفظ استعمال ہونا شروع ہوجاتاہے ۔ بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ اور ’ تو کون ؟ میں خوامخواہ کے مصداق شیخ رشید اپنے کام پر لگے ہیں اور عوام کو مارشل کی نوید دے رہے ہیں۔ نوید نہیں بلکی ڈرا رہے ہیں جبکہ اس سے انکا کوئی نقصان نہیں ہے۔ اگر خدانخواستہ کوئی غیر جمہوری عمل ہوتا ہے ( جسکا کوئی چانس نہیں ) تو وہ وہاںبھی وزیر بن جائینگے ۔ پاکستان کی سیاست کے کھیل میں ہر ایک کا ساتھ نبھانے والے اور ’’ملک کے بہترین مفاد ‘‘ کا سہارا لیکر کسی کی بھی حکومت کا ساتھ دینے کیلئے ایم کیو ایم، مسلم لیگ ق ، شیخ رشید ، اور کئی دوسرے سیاست دان ہمہ وقت تیار رہتے ہیں ’ ملک کا بہترین مفاد ‘ انکا نعرہ ہوتا ہے کرسی کے شوقین تو ہیں نہیں ۔ حکومتی وزراء کے بیانات میںمولانا فضل الرحمان کے حوالے سے یکسانیت نہیں، ایک مخالف پراپیگنڈہ کرتا ہے دوسرا مذاکرات کی بات کرتا ہے ، اسی طرح مولانا کے متوقع حمایتی جماعتوں میں کوئی ہم آہنگی نہیں ، فیصلوں پر روزانہ کی بنیاد پر سوچ بچار ہے ۔ عوام کہاںجائیں ؟ مہنگائی کے مارے ، بے روزگاری کے مارے ۔ حکومت جو بذریعہ دھرنا ہی اس مقام پر پہنچی پہلے احتجاج کیلئے کنٹینر دینے ، کھانا دینے کی بات کرتی تھی آج دھرنا دماغ پر چھایا ہوا لگتا ہے جبکہ جمہوری ملکوں میں حزب اختلاف کی آواز کو مثبت دیکھا جانا کوئی عیب نہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ ہم چاروں طرف سے گھرے ہیں اور اپنی PRIORITY کا تعین نہیں کرپارہے ۔ جسکی وجہ سے اپنی ساکھ بچانے کیلئے عوام سے سے دروغ گوئی سے کام لیتے ہیں ۔ حال ہی میں FATF کے اجلاس کے موقع پر جہاں ہندوستان اپنی سفارتی مکاری کو استعمال کرتے ہوئے حتی المکان کوشش کرتا رہا ہے کہ پاکستان بلیک لسٹ ہوجائے ، IMF اور FATF کے دبائو اپنی جگہ ہیں حکومت پاکستان اس جال سے بچ نکلنے کے یقیناً بھر پور انتظامات کررہی ہے ۔ حالیہ اجلاس میں یہ طے ہوا کہ پاکستان نے 27 نکات میں سے صرف تین نکات پر عمل درآمد کیا ہے ، پاکستان کی کوششوں سے بھارتی حربہ ناکام ہوا اور پاکستان کو فروری تک وقت مل گیا ۔ پاکستان میں مذہبی کارڈ سے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا خوف ذدہ ہے جس وجہ سے FATF جیسے ادارے پاکستان پر نظریں جمائے بیٹھے ہیں اور اس ساز ش میں ہندوستان بھر پور اپنا کردار ادا کررہا ہے ۔ اسوقت صورتحال ایسی ہے کہ جب تک امریکہ کی آشیر باد نہیں ہوگی پاکستان FATF کے بھنور میں پھنسا رہے گا چونکہ امریکہ ، برطانیہ فرانس ہی وہ ممالک ہیں جنکی آنکھیں بند ہیں انہیں دہشت گردی صرف پاکستان میں نظر آتی ہے وہ تمام طالبان جو کل تک اقوام متحدہ میں دہشت گردوںکی فہرست میں تھے آج ان سے مذاکرات ہو رہے ہیں۔ انہیں فنڈز کون فراہم کرتا ہے یہ سوال کرنے والا خود مذاکرات کا خواہش مند ہے۔ FATFکے شور غل میں چھپ کر بھارت نے اپنے آئین کا آرٹیکل 370 ختم کردیا ہے جنت نظیر کشمیر کو جہنم کا منظر بنادیا کسی عالمی ادارے کو بھارتی دہشت گردی نظر نہیں آتی۔ پاکستان پرFATF کا بھوت جب تک سوار رہے گا جب تک پاکستان افغانستان میں امریکہ کی مرضی سے بنی ہوئی حکومت کی طرف تعاون کا ہاتھ نہیں بڑھائے گا ، پاکستان ایک امن پسند ملک، معاشی طور پر کمزور ہے اور معاشی طور پر کمزور نہ ہی کوئی شخص اور نہ ہی حکومت دہشت گردی کی شرارت کرتاہے ۔ ملک اور علاقے میں امن کی خاطر تو پاکستان نے ان طالبان سے نہ صرف مذاکرات کی کوشش کی بلکہ انہیں اسلام آباد میں خوش آمدید کہا جنکی وجہ پاکستان کے ستر ہزار معصوم اور نہتے عوام شہید ہوچکے ہیں اس میں طالبان اور ہندوستان کی کاوشیں شامل تھیں اور ہیں۔ بیرونی طور پر اپنی کمزور صورتحال پر عوام کو اعتماد لینا ضروری ہے۔ نیز سیاسی ہم آہنگی ضروری ہے۔ کچھ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ پاکستان کے میڈیا کو بند کردیں پاکستان کے حالات درست ہوجائینگے جبکہ صورتحال اسطر ح ہے کہ اگر حکومتی چند لائوڈ اسپیکروںکی آواز بند کردی جائے تو سیاسی ہم آہنگی ہوگی۔ یہ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بنتے ہیں انکی روٹی اور کرسی ہر جماعت کی حکومت میں پکی ہوتی ہے ۔ ہر حکومت بھی انہیں اپنے ساتھ ملاتی ہے کہ انکی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ وزیر اعظم سے یہ مودبانہ استدعا ہے کہ اندورنی معاملات ٹھیک کریں چونکہ باہر بہت کام ہے جو پاکستان کی ضرورت ہے۔ مولانا کو چاہئے کہ اپنے اسمبلی میں نہ ہونے کا معاملہ زیادہ دل پر نہ لیں اور وہ وقت یاد کریں جب وزیر اعظم عمران خان کی اسمبلی میں صرف ایک سیٹ تھی۔ یہ جانتے ہوئے کہ مولانا کے وزیر اعظم بننے کا کوئی چانس نہیں ۔ انہوں نے اپنا ووٹ مولانا فضل الرحمان کو دیا تھا جسکا شکریہ مولانا نے اس وقت کے رکن اسمبلی عمران خا ن سے کیا تھا ، حالیہ دھرنا یا مارچ میں جب دونوں جانب سے اپنے موقف میں سخت روی ہے تو یہ بات ناممکن ہے خدانخواستہ چھوٹا یا بڑا کوئی ٹکرائو نہ ہو۔ وزراء اپنی زبان بندی کریں۔ یہ کام وزارت داخلہ کا ہے اور وزیر داخلہ بریگیڈیر (ر)اعجاز شاہ بے شمار خوبیوں کے حامل ہیں وہ بات چیت بھی احسن طریقے سے کرسکتے ہیں اور کنٹرول بھی تاکہ عوام کسی پریشانی کا شکارنہ ہوں۔