نہ تو کوئی بڑا صاحب علم ہوں اور نہ ہی کوئی صاحب دانش لیکن ایک عیب ضرور ہے کہ علم کے حصول اور دانش کے موتی چننے کی جستجو میں ہر در پر دستک دیتا رہتا ہوں۔ اس صحرا نوردی میں کبھی کبھار کچھ گْتھیاں اس طرح اْلجھ جاتی ہیں کہ کتابوں میں انکے جواب بڑے محدود دکھائی دیتے ہیں پھر ایسے میں اس خاکسار کا رْخ روحانی بابوں کی طرف ہوتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آجکل کے دنوں میں صوفی برکت صاحب، واصف علی واصف، ساغر صدیقی، استاد دامن اور اشفاق احمد جیسے اہل علم اور معرفت کے سر پنچوں کا قحط الرجال نظر آتا ہے لیکن اللہ بڑا بے نیاز ہے وہ اپنے مانگنے والوں کو کبھی مایوس نہیں کرتا وہ کیا کہتے ہیں کہ "اک در بند تے سو در کھلے" بس طلب ہونی چاہیئے راستے خود بخود مل جاتے ہیں۔ یقین نہ آئے تو رات کے پچھلے سے پچھلے پہر اْن لمحات جب ہر سْو خاموشی کا سکوت اسطرح چھایا ہوتا ہے کہ ڈر لگتا ہے کہ خود انسان کے اپنے سانسوں کی حرارت کہیں فضاء میں ارتعاش کا سبب نہ بن جائے کچھ دیر قیام کر کے دیکھیے گا آپکا وجدان آپکو ایسی قربتوں سے آشنا کرے گا کہ آپ دنگ رہ جائینگے کہ کائنات میں ایسی محفلیں بھی سجتی ہیں جہاں ہم جیسے متلاشی اور پیاسوں کیلیئے اس قحط الرجال کے موسم میں بھی سبیلیں لگی ہوتی ہیں۔ یہ وہ محفلیں ہوتی ہیں جہاں بڑے بڑے صاحب علم، دانشور، کرنے والے دو زانو حضور نبی اکرم کے سامنے عاجزی سے بیٹھے ہوتے ہیں اور جہاں بڑے سے بڑے مشکل سوالوں کا جواب دو لفظوں میں مل جاتا ہے۔ کئی دن سے راقم کے ذہن میں ایک لفظ " مکافات عمل" جسکا ہم اپنی گفتگو میں اکثر بڑا بے دریغ استعمال کرتے ہیں اسکی اصل حقیقت کے متعلق عجیب و غریب سوالات اْٹھ رہے تھے جو کہ میں کسی سے کیا پوچھتا میری اپنی ذات پر بھی واضع نہیں ہو رہے تھے۔ ایسے میں کیا کرتا۔ وہی کیا جو اکثر اوقات بھکاری کرتے ہیں۔ اپنا سوال لیکر بادشاہوں کے در پر چلا گیا۔ جواب ملا ’’اناللہ وانا الیہ راجعون‘‘ بڑی دیر اس ایک کلمے کی گہرائی پر غور کرتا رہا کہ یہ کسی انسان کے نہیں قرآن جو دنیا کی سب سے بڑی حقیقت اور جسکی سچائی کی قسم خود رَب کریم نے دی ہے اسکے پہلے پارے کی سورہ البقر کی آیت 156 میں درج الفاظ ہیں جسکا لفظی اعتبار سے ترجمعہ کچھ یوں ہے " ہم تو اللہ کے ہیں اور ہمیں اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے" بظاہر اکثر اوقات یہ کلمات ہم اس وقت پڑھتے ہیں جب ہم کسی کی موت کا سْنتے ہیں لیکن درحقیقت دیکھا جائے تو ان کلمات کی ادائیگی کے ساتھ ہم اس حقیقت کا اعتراف کر رہے ہوتے ہیں کہ ہر چیز کو اپنے اصل کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ ان کلمات کے ایک ایک لفظ پر غور کرتا رہا اور پھر سمجھا کہ اتنی بڑی ہستیوں کی محفل سے "مکافات عمل" کی حقیقت اس ایک کلمے سے کیوں بیان کی گئی کہ ہر چیز کو اپنے اصل کی طرف واپس جانا ہے۔ اچھے عمل کی واپسی اچھے عمل کی صورت میں ہی نصیب ہو گی اور بْرے عمل کا جواب میں برائی ہی ملے گی۔ مجھے میرے سوال کا جواب مل گیا۔ اْنہی لمحات میرا ہمزاد مجھ سے مخاطب ہوا کہ کاش تمہاری طرح اس ملک کی تقدیر سے کھیلنے والے بھی سابقہ تجربات کی روشنی میں اس حقیقت سے آگاہی حاصل کر لیں اور اگلے چند دنوں میں اپنے ملک کے حوالے سے جو خدشات پائے جا رہے ہیں کاش ہر کوئی اس ایک کلمے کی حقیقت میں اپنے اپنے کردار کا جائزہ لے لے۔ اس سے اگے کچھ کہہ کر اس کالم کو سیاسی نہیں بنانا چاہتا بس اتنا کہنا چاہتا ہوں یاد رہے بقول مظفر وارثی …؎
"کوئی تو ہے جو نظامِ ہستی چلا رہا ہے ، وہی خدا ہے
دکھائی بھی جو نہ دے ، نظر بھی جو آرہا ہے وہی خدا ہے
تلاش اْس کو نہ کر بْتوں میں، وہ ہے بدلتی ہوئی رتوْں میں
جو دن کو رات اور رات کو دن بنا رہا ہے ، وہی خدا ہے
وہی ہے مشرق وہی ہے مغرب ، سفر کریں سب اْسی کی جانب
ہر آئینے میں جو عکس اپنا دکھا رہا ہے ، وہی خدا ہے
کسی کو سوچوں نے کب سراہا ، وہی ہوا جو خدا نے چاہا
جو اختیارِ بشر پہ پہرے بٹھا رہا ہے ، وہی خدا ہے
نظر بھی رکھے ،سماعتیں بھی ، وہ جان لیتا ہے نیتیں بھی
جو خانہء لاشعور میں جگمگا رہا ہے ، وہی خدا ہے
کسی کو تاجِ وقار بخشے ، کسی کو ذلت کے غار بخشے
جو سب کے ماتھے پہ مہرِ قدرت لگا رہا ہے ، وہی خدا ہے
سفید اْس کا سیاہ اْس کا ، نفس نفس ہے گواہ اْس کا
جو شعلہء جاں جلا رہا ہے ، بْجھا رہا ہے ، وہی خدا ہے
سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک مسلمان ہوتے ہوئے جب ہم ان تمام حقیقتوں کے معترف ہیں تو پھر ان ساری حقیقتوں کو جانتے بوجھتے جب ہم تمام معاملات اپنے ہاتھ لیکر دوسروں کی تباہی کا سامان اٹھانے میں جْت جائیں تو پھر اسے انسان کی جہالت کے علاوہ اور کیا کہہ سکتے ہیں۔ بیشک اسی لیئے قرآن پاک کی ایک اور سورۃ العصر میں بھی ہے۔ قسم ہے عصر کے وقت کی بیشک انسان خسارے میں ہے مگر جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کیے اور حق پر قائم رہنے کی اور صبر کرنے کی آپس میں تلقین کرتے رہے" اتنی بڑی بات سْننے کے بعد بھی اگر ہم اپنا قبلہ درست نہ کریں تو یہ یقینا ہماری بدقسمتی ہی ہو سکتی ہے۔ یاد رہے بْغض اور انتقام انسان کو اندھا کر دیتے ہیں اور اندھا ہمیشہ گڑھے میں گرتا ہے