تقریر کا اثر …صرف بے صبرے ناقدین کیلئے

ابھی وزیر اعظم پاکستان عمران خان کی اقوام متحدہ میں تقریر کے دورس اثرات کو وقت کی طنابیں کھینچ کر فوراً اور ابھی دیکھنے کے متمنی اسکے سارے سیاسی حریفوں کے واہیات قسم کے اعتراضات اور نامعقول قسم کی تجاویز کا غیر جانبدار مبصرین تجزیہ ہی کر رہے تھے کہ یہ کج فہمی ہے یا کوتاہ اندیشی۔ سیاسی حماقت ہے یا منطق، دلیل اور معقولیت سے لاعلمی کہ سکاٹ لینڈ کی حکومت نے عمران خاں کی تقریر کے اس حصہ بلکہ فقرہ سے متاثر ہو کر کہ ’’مغرب میں عورتوں کو اپنی مرضی سے کپڑے اتارنے کی تو اجازت ہے لیکن جب وہ اپنی مرضی سے حجاب لینا چاہیں تو ان پر پابندی عائد کر دی جاتی ہے کیا یہ انتہا پسندی نہیں؟‘‘ یہ بڑا اور بنیادی فیصلہ کیا اس تقریر کا سکاٹ لینڈ کی حکومت پر یہ اثر ہوا کہ اس نے پولیس میں کام کرنے والی مسلمان خواتین کو حجاب لینے کی اجازت دے دی۔ ویسے تو چرچ سے متعلق خواتین یعنی ننز (Nuns) کے جس لباس و پاکیزگی حرمت و آبرو اور احترام کی علامت سمجھا جاتا ہے مسلمان خواتین کے اس سے ملتے جلتے لباس کو نفرت یا ناپسندیدگی، حقارت یا تعصب سے دیکھنا بھی انتہا پسندی ہے اور اسی انتہا پسندی میں اغیار کے علاوہ اپنوں کی کارستانی بھی شامل ہے۔ فرانس میں حجاب پہن کر ایک شاپنگ مال پر خریداری کرنے والی اس خاتون کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جانے کے واقعہ کو فرانسیسی میڈیا نے بڑی کوریج دی جو پہلے تو مختلف ملکوں کے افراد کی حقارت آمیز نگاہوں کو برداشت کرتی رہی اور جب دو تین بہت ہی ماڈرن عرب نژاد لڑکیوں نے اسے غصے اور نفرت کے ملے جلے جذبات کے ساتھ ضرورت سے زیادہ تنگ کیا اور یہاں تک کہہ دیا کہ تمہاری وجہ سے ہم مسلمان عورتوں پر جو دوسرے ممالک سے آئی ہیں آوازے بھی کسے جاتے ہیں اور نفرت بھی کی جاتی ہے اگر تم یہ لباس ترک نہیں کر سکتیں تو اپنے ملک جہاں کی بھی تم ہو واپس جائو اور ہم غیر ملکی مسلمان عورتوں پر رحم کرو۔ حجاب والی خاتون نے ان عورتوں کے سامنے چہرے سے نقاب ہٹایا اور کہا میں اصل فرانسیسی ہوں۔ یہاں کی شہری یہ ملک میرا ہے تم یہاں سے اپنے اپنے ملک واپس جا کر اپنی بے پردگی کا پرچار کرو۔ ہمیں خدا کے لیے معاف کر دو۔
معاف کرنے کے حوالے سے چند روز پہلے پوپ فرانسس نے اپنی ریٹائرمنٹ پر جو تقریر کی وہ بھی ایک شاہکار تقریر ہی شمار ہو گی پوپ فرانسس نے موجودہ دور کی بے اعتدالیوں، پریشانیوں اور خود ساختہ مصائب و آلام سے نجات کیلئے جس بنیادی فلسفہ کی تعلیم دی وہ واقعتاً دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے کے زمرے میں آتا ہے۔ پوپ نے کہا آج کی نوجوان نسل اپنے والدین سے شاکی ہے کہ وہ اعلیٰ پائے کے والدین نہیں یہ بچے اتنا نہیں سمجھتے کہ وہ اعلیٰ پائے کے والدین کیسے ہو سکتے ہیں وہ نہ تو کوئی مثالی جوڑا ہیں ، جب وہ خود مثالی جوڑا نہیں تو انکے بچے کیسے مثالی ہونگے۔ پوپ نے کہا ہم مسلسل ایک دوسرے سے شاکی رہتے ہیں۔ میاں اپنی بیوی سے نالاں اور بیوی اپنے شوہر سے شاکی اور پھر پوری زندگی اسی کشمکش میں اکٹھے یا علیحدہ علیحدہ گزارتے ہیں اور خاندان کا جو تصور اور وجود برداشت کرنے سے عبارت تھا اسکی برکات سے محروم رہتے ہیں۔ خاندان کا تو مقصد ہی معاف کرنا اور برداشت کرنا تھا اور یاد رکھیں معاف کرنے کے وصف کو اختیار کئے بغیر نہ تو شادی مثالی ہو سکتی ہے نہ خاندان، معاف کرنا تو ہماری جذباتی صحت اور ایک دوسرے سے لگائو کی حلاوت کو محسوس کرنے کیلئے اور ہماری روحانی زیست کیلئے ضروری ہے۔ معاف کرنے اور برداشت کرنے کی خوبی یا عادت کے بغیر ایک خاندان جھگڑے اور فساد کی آماجگاہ بن جائیگا اور یقین جانیئے پھر یہ خاندان صحت مند قرار نہیں دیا جائیگا بلکہ اسے بیمار کہا جائیگا جو معاف نہیں کرتا وہ نہ روح کا سکون پاتا ہے اور نہ ہی اس کا اپنے خالق سے بندگی والا رابطہ ہو سکتا ہے۔ پوپ کی اس بات میں بھی بڑا وزن تھا کہ برائی تو زہر قاتل ہے جو دل میں بغض، نفرت، کدورت اور برائی کو پروان چڑھنے کی کھلی چھٹی دے دیتا ہے اسکی راہ میں رکاوٹ نہیں ڈالتا وہ مہلک مرض میں مبتلا ہو کر معاشرے کیلئے ضرررساں بن جاتی ہے۔ دوسروں کی غلطیوں کو معاف نہ کرنیوالے۔ انہیں نظرانداز نہ کرنے والے پوپ فرانسس کے نزدیک صحت مند اور سود مند انسان نہیں بلکہ وہ جسمانی ، روحانی اور جذباتی ہر انداز میں بیمار متصور ہوتے ہیں۔ گھروں کے جھگڑے اور خاندانوں میں نفرتیں اس زندگی کو جنم دیتی ہیں ، خاندان تو علامت ہی زندگی کی ہونی چاہئے آج کے لوگوں نے اسے مردہ یا موت کی علامت بنا دیا ہے۔ یہ تو سکون کی اور امن کی وادی تھی جسے بے سکونی اور لڑائی میں بدل دیا گیا ہے۔ لوگوں نے اس حقیقت کا کھوج ہی نہیں لگایا کہ معاف کرنے میں راحت اور سکون ہے اور بدلہ لینے میں دکھ اور پریشانی جس سے مہلک بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ پوپ نے ہر شخص سے خودمختار ہو جانے اور انفرادی حیثیت کو خاندان پر اہمیت دینے کا بڑی دردمندی سے ذکر کیا کہ خاندان تو ایک دوسرے کی مدد ا ور حمایت کیلئے اپنی شناخت رکھتے تھے اب دکھ، عداوت اور بغض سے اس اکائی کو منتشر کر دیا گیا ہے یہ تو ایک دوسرے کے دکھ درد کے ساتھی تھے جو ایک دوسرے کو دکھ دینے کے لیے صبح شام اپنی سازشوں اور نفرتوں کا جال بنتے رہتے ہیں اور اسی خرابی کا ذمہ دار ہر شخص ہے کوئی اس سے بچ نہیں سکتا اس پر تو مغربی مفکرین کا اتفاق ہے کہ ہم جہاں بھی اور جس حال میں بھی رہ رہے ہیں۔ وہ حالات پیدا کرنے میں ہم خود بھی شریک ہیں۔ اس بگاڑ میں اپنا حصہ ڈالنے کے حوالے سے خوداحتسابی سب کچھ کھول کر رکھ دیگی۔ فرد کی اہمیت کا اگر فرد ہی ادراک نہ کرے تو خاندان یا معاشرہ کیسے کرے گا۔ خاندان یا معاشرہ افراد سے مل کر ہی بنتا ہے۔ اسی لیے اس چینی کہاوت کو دنیا کے ہر خطے میں سراہنے کے ساتھ بعض ممالک نے شہریوں میں احساس ذمہ داری اجاگر کر کے فرد کے کردار کو اہمیت دے کر اپنی قوم اور معاشرے کی اصلاح بھی کر لی اور اسے ہر اعتبار سے ترقی کی منازل سے متعارف بھی کرا دیا۔ امن و امان سے لیکر احترام انسانیت تک اور عدل و انصاف سے لیکر کامیابی و کامرانی تک مکمل دسترس اور اس کے ثمرات سے لطف اندوز ہونے کے سارے مناظر خود ہی دیکھے اور اہل جہان کو بھی دکھائے۔ فرد کی اہمیت اور اس کے کردار کے حوالے سے چینی کہاوت کچھ یوں ہے۔
if there is light in the soul
there will be beauty in the persons
if there is beauty in the person
there will be harmony in the house
if there is harmony in the house
there will be order in the nation
there will be peace in the world
گویا دنیا میں امن کے قیام کی ضمانت ایک فرد کی اصلاح میں پنہاں ہے اس کے شعور میں ہے اس کی شخصیت میں ہے اور اس کے عمل میں ہے۔

ای پیپر دی نیشن