کہتے ہیں کہ جو اپنے دشمن کو نہ جانے اور نہ پہنچانے اس سے بڑا احمق اور خود کو ذلت کی موت مارنے والا کوئی اور نہیں ہوتا! اگر یہ سچ ہے اور یقینا سچ ہے تو پھر باہم دست و گریبان ہمارے مسلمان لیڈر تو دشمن کو یا دشمن کی چالوں کو سمجھنے سے ہمیشہ ہی قاصر رہے ہیں‘ یہ تو مودی کو بھی نہیں جانتے اور نہ سمجھ پا رہے ہیں! یہ گجرات کا وہی سفاک درندہ ہے جو اونچی ذات کا ہندو بنیا بنتا ہے‘ یہاں کے بنیا سود خوری اور لالچ میں اپنی مثال آپ ہیں۔ گجرات کا ٹھیا واڑ میں خصوصاً احمد آباد میں ایسے مسلمان بھی ہیں جو اصلاً یہاں آکر آباد ہونیوالے عربوں کی اولاد ہیں اور ابھی بھی عربی بولتے ہیں اور عرب ملکوں سے کاروبار کرتے ہیں۔ بہت محنتی اور دولت مند بھی ہوتے ہیں اس لئے یہاں کے بنیا ان سے جلتے اور حسد کرتے ہیں۔ احمد آباد میں تو ہندو مسلم فسادات کی خبریں بھی آتی رہتی ہیں۔ حسد اور لالچ کی اسی فضا میں یہ سفاک درندہ اور کمینہ دہشت گرد مودی تیار ہوا ہے۔اس نے سرکاری مشینری سے بے گناہ مسلمانوں کا قتل عام کروایا‘ اسے یہاں دہرانے کی تو ضرورت نہیں مگر اس اذیت ناک موت کو تماشا بنانے کے بعد یہ جس طرح سے اچھلتا کودتا‘ قہقہے لگاتے ہوئے یہ بکتا تھا کہ میں نے دنیا کو بتا دیا اور کرکے بھی دکھا دیا ہے کہ مسلمانوں کو عذاب دیکر مارنے سے تماشا کرنا کتنا پرلطف ہوتا ہے اور یہ کہ مسلمانوںکو نیست و نابود کرنا کس قدر آسان ہے۔ اسکی دردناک فلم بھی اس نے بنوائی اور دنیا کو دکھائی بھی تھی۔ عالمی ذرائع ابلاغ نے بھی اس پر آنسو بہائے تھے۔ مودی پر لعنت ملامت بھی کی گئی حتیٰ کہ انکل سام امریکہ نے تو اس کا اپنے ہاں داخلہ بھی ممنوع کردیا تھا اور اب وہی مودی کشمیر میں بھی یہی شرمناک کھیل کھیلنے پر تلا ہوا ہے‘ اسی شرمناک قتل اور دہشت گردی سے یہ الیکشن جیت کر بھارت کے نام نہاد اونچی ذات کے برہمن اور بنیا کا ’’محبوب لیڈر‘‘ اور وزیراعظم بن کر سفاکانہ اچھل کود میں بڑھ کر کچھ اور بلکہ بہت کچھ کرنا چاہتا ہے۔
قابل عبرت اور افسوسناک بات یہ ہے کہ اس سفاک دہشت گرد پر کوئی مقدمہ یا سزا بھی نہیں لاگو ہوئی۔ نہ بھارت میں نہ پاکستان میں اور نہ کسی نے ان بے گناہ مظلوموں کی فریاد بین الاقوامی عدالت انصاف تک پہنچائی۔ جرمنی کے ہٹلر نے بے بس یہودیوں پر جو ظلم کیا تھا‘ اس کی اسے تو دنیا سزا دے چکی ہے یہودی بھی مغربی دنیا سے ’’رحمدلی اور ہمدردی‘‘ کا پروانہ حاصل کر چکے ہیں بلکہ وہ تو اپنے سودی سرمایہ سے مغربی لیڈروں کو بھی خرید چکے ہیں۔ علامہ اقبال نے تو یورپ کی رگ جاں پنجۂ یہود میں دیکھ لی تھی‘ انہی سود خور یہودیوں نے دوسری عالمی جنگ سے نڈھال یورپ اور خصوصاً چالباز انگریز کو خرید کر فلسطین کو خرید لیا تھا۔
سوال یہ ہے کہ کیا گجرات کے مظلوم مسلمانوں کیلئے رحمدلی اور ہمدردی کا کوئی پروانہ حاصل کیا جا سکتا ہے؟ بلکہ میں تو یہ بھی مطالبہ کرتا ہوں کہ ٹائم بار کوایک طرف رکھ دیا جائے اور بے بس اور مظلوم یہودیوں کے مقدمہ کے ساتھ گجرات کے ان بیگناہوں اور مظلوموں کا مقدمہ بھی بین الاقوامی عدالت انصاف میں پیش کیا جائے اور یوں پرانے اور نئے ہٹلر پر ایک ساتھ لعنت بھیج کر نشانۂ عبرت بنایا جائے۔ یوں یہ ایک نمونہ ہو گا جو ہمیشہ زندہ اور باقی رہے گا!
لیکن مجھے یہ بھی اندازہ ہے بلکہ شدید قسم کا احساس بھی ہے کہ مظلوم یہودیوں کو تو بے مثال انصاف مل گیا مگر گجراتی دہشت گردی کے مظلوموں کو انصاف نہیں ملے گا بلکہ مانے ہوئے عالمی دہشت گرد کے چنگل سے کشمیریوں کو بھی شاید نہ چھڑایا جا سکے کیونکہ یہ تو مسلمان ہیں نا!؟ اقوام متحد ہ میں بھی مشرقی تیمور کو مسلم انڈونیشیا سے اور جنوبی سوڈان کو مسلم سوڈان سے تو فوراً کاٹا جا سکتا ہے مگر مظلوم کشمیریوں اور فلسطینیوں کے حق میں اپنے ہی فیصلے کو اقوام متحدہ نافذ کرنے سے قاصر ہے کیونکہ یہ تو مسلمان ہیں نا؟
ہمارے وزیر اعظم نے جنرل اسمبلی میں بہت اچھی تقریر کی اور ان کالموں میں میں تو ان کی تحسین بھی کر چکا ہوں جسے بعض دوستوں نے ’’قصیدہ خوانی‘‘ قرار دیا ہے مگر میں نے تو حق دار کو اس کا حق دیا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کشمیریوں کی سفارت کاری کا حق ابھی ادا نہیں ہوا اور جس طرح بے دلی سے ہم اب کام کر رہے ہیں یہ تو ہم اپنی تیس سالہ تاریخ کو دُوہرا رہے ہیں، اچھلتے کودتے ہوئے شرمناک عالمی دہشت گرد کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکیں گے، وہ تو اب خود کو اونچی ذات کے ہند و برہمن اور بنیا کا ایسا لیڈر بنا چکا ہے جس کے ہاتھ میں اقتدار کے ساتھ ہر قسم کا اسلحہ بھی ہے۔ وہ تو کشمیریوں کو گجراتی بنا کر پاکستانیوں کی ایٹمی موت کا تماشا دکھانے کی بھی سوچ رہا ہو گا! اگر باہمی گالی گلوچ اور اپنی دست و گریبانی سے ہمارے محترم لیڈر خود کو نہ روک سکے تو ہم خدا کے بھی نافرمان ہوں گے اور کشمیری بھی ہماری جان کو روتے رہ جائیں گے!
اب تو کچھ اور ہی کرنا پڑے گا، یہ جلوس نکالنا اور ساتھ ہی باہم دست و گریبان ہو کر پرانی گالی گلوچ کا مظاہرہ کرنا بیکار بلکہ الٹا نقصان دہ ہے۔ اس کیلئے تو فوری طور پر تین قدم اٹھانا ہونگے۔ سیاسی لیڈروں کے وقتی طور پر ہی سہی مقدمات روک دئیے جائیں اور حزب اقتدار و حزب اختلاف اکٹھا جلوس بھی نکالیں اور جماعتی شکل میں دنیا بھر کے ملکوں میں بھی جائیں، ساتھ ہی گجرات اور کشمیری مسلمانوں کے نمائندہ وفد بھی سب ملکوں میں جائیں اب دنیا سے بھی پوچھیں کہ ایک دہشت گرد اور درندہ صفت قاتل دنیا کی نام نہاد سب سے بڑی پارلیمانی جمہوریت کا وزیر اعظم کیسے برداشت کر لیا گیا؟ کیا صدام، قذافی اور مرسی برداشت کئے گئے؟ اگر وہ برداشت نہیں ہو سکے تو اچھلنے کودنے والا نیا ہٹلر کیوں برداشت کیا جا رہا ہے؟ یہ مسلم اور غیر مسلم میں یہ امتیازی فرق کیوں ہے؟ مودی اگر مسلمانوں سے فارغ ہو گیا تو پھر امریکہ، روس اور چین کی بھی خیر نہیں!