اخلاقی پستیوں میں دھنسا ہوا بھارت !

گزشتہ سے پیوستہ

 دلتوں کے ایک لیڈر نے گزشتہ دنوں بھرے جلسے میں اقرار کیا ہے کہ ہمارے اعلیٰ ذات سے تعلق رکھنے والے حکمران ان کا تعلق چاہے کانگرس جیسی سیکولر جماعت سے ہویا یہ راشٹریہ سیوک سنگھ و بجرنگ دل یا بی جے پی جیسی ہندو انتہا پسند جماعت سے تعلق رکھتے ہوں یہ سب ہمیں مسلمان اقلیت کے خلاف استعمال کرتے رہے ہیں اور ہم بھی ان کے بہکاوے میں آکر مسلمانوں کے برصغیر پرہزار سال تک حکمرانی کا بدلہ لینے کیلئے مسلمانوں کے خلاف اعلیٰ ذات کے ہندو سیاستدانوں کے آلہ کاربن کر انجانے میں اپنامستقبل تاریک کر تے رہے، بھول گئے کہ یہی اعلیٰ ذات کے ہندو ہی تھے۔ 
جنہوںنے برصغیر کی ہندو ریاستوں پر حملہ آور ہونے والے ہر مسلمان فاتح کا نہ صرف ساتھ دیا بلکہ یہاں حکمرانی قائم کرنے میں مسلمان فاتحین کے دست و بازوبن کر ان کی معاونت کرتے رہے او ر آج آزادی کے 73برسوں بعد یہ ہمیں مردم شماری کی آڑ میں  Act Citizenship Amendment(CCA)کے تحت واپس اس دور کی طرف دھکیلنا چاہتے ہیں جس میں نچلی ذات کے ہندو اعلیٰ ذات رکھنے والوں کے صرف خدمت گزاربن کر ہی زندگی گزار سکتے ہیں ۔ 
بھارت میں اس وقت نچلی ذات کے ہندو مسلسل سراپا احتجاج ہیں وہ جانتے ہیں کہ اعلیٰ ذات کے برسراقتدار انتہا پسند ہند و اگر اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے تو ان کے گھر سلامت رہیں گے نہ ان کامال اسباب، سب کچھ لوٹ لیاجائے گا ۔ بہو ، بیٹیوں کی عزتیں جو پہلے ہی دائو پر ہیں وہ سب برہمنوں واعلیٰ ذات کے ہندوئوں کے رحم و کرم پر ہونگی۔ آج جبکہ ملک میں جمہوری راج ہے وہ اپنی کم سن بچیوں کی ہندو انتہا پسندوں کے ہاتھوں بربادی پر سوائے سڑکوں پر احتجاج کے کچھ نہیں کہہ سکتے ۔ دنیا بھر میں بھارت کیلئے اس سے بڑھ کر ذلت کیا ہوسکتی ہے کہ وہ ملک جس کے بارے میں دنیا کے تمام بڑے اخبارات دن رات گیت گایا کرتے تھے کہ بھارت دنیا کی نئی ابھرتی ہوئی معاشی اور عسکری قوت ہے مغربی میڈیا کی طرف سے 2005کے بعد اس طرح کے پروپیگنڈے سے متاثر ہوکر بہت سے عالمی ساہوکار بھارت میں سرمایہ کاری کی طرف راغب ہوئے، بھارت کو ممبئی کی فلمی صنعت ’’بالی ووڈ‘‘ کے تناظر میں دیکھا جانے لگا جہاں دوشیزائیں پہاڑوں پر ہر طرف رقص کرتی اور گیت گاتی پھرتی ہیں جدھر دیکھو امن اور روشنیوں کا دور دورہ ہے ۔ عالمی سطح پر ملنے والی اس تعریف نے بھارتی حکمرانوں کو عجیب گھمنڈ میں مبتلا کردیا وہ میڈیا کے پروپیگنڈے کو حقیقت سمجھ بیٹھے اور بھول گئے کہ ان کی 12ریاستوں میں آزادی کی مسلح جدوجہد زروں پر ہے 7ریاستوں میں عملاً علیحدگی پسندوں کاکنٹرول ہے ان کے ملک میں 60فیصد آبادی کے پاس تن ڈھانپنے کیلئے صرف 2کپڑے ہیں 40فیصد آبادی صرف چھت سے ہی نہیں انسان کہلانے کے حق سے بھی محروم ہے ۔ اپنے اس غرور اور گھمنڈ کے زعم میں بھارتی حکمرانوں نے ایک طرف مقبوضہ کشمیر میں بربیت کی انتہا کرتے ہوئے کشمیریوں پر عرصہ حیات تنگ کردیا تو دوسری طرف بھارت کے اندر اقلیتوں کے علاوہ دلت یا اچھوت کہلانے والے اپنی ہی ہندو آبادی کو انسان سمجھنے سے انکار کردیا ۔ 2014 میں ہندو انتہا پسندوں کے برسر اقتدار آنے کے بعد بھارت میں اعلیٰ ذات کا ہندو نئے فسطائی روپ میں سامنے آیا جس نے  اپنے اقدامات سے دنیا کے سامنے بھارت کا وہ حقیقی اور بدنما چہرہ بے نقاب کر دیا جس میں بھارت میں ہر 16منٹ میں کہیں نہ کہیں کسی خاتون کی عزت لوٹ لی جاتی ہے ۔ یہ انکشاف بھی بھارت سے باہر کے اخبار یا انسانی حقوق کے ادارے نے نہیں بلکہ’’ ہندوستان ٹائمز ‘‘ نے 7 اکتوبر 2020 کو کیا کہ ہر چار گھنٹے بعد ایک خاتون اغوا کرلی جاتی ہے اور ہر دوروز بعد ایک خاتون پر تیزاب پھینکنے کا واقع پیش آتا ہے اخبار کی رپورٹ کے مطابق 2019میں صرف دہلی میں خواتین سے زیادتی کے 12ہزار 902کیس پولیس تھانوں میں رجسٹر ہوئے ساتھ ہی بتایا گیا کہ جنسی تشدد کا نشانہ بننے والی خواتین کی تعداد دیے گئے اعدادوشمار سے کہیں زیادیہ ہوسکتی ہے کیونکہ ہزاروں خاندان اپنی بہو بیٹیوں پر ٹوٹنے والی قیامت منظرعام پر لانے کو تیار نہیں ہوتے ,بھارتی  مقروہچہرے کے ساتھ یہ سارے اعدادو شمار17 اکتوبر  2020کو اس وقت سامنے آجے جب اتر پردیش کے Hathras ضلع میں 19سالہ دلت خاتون کو اس کی ماں کے سامنے درندگی کا نشانہ بنانے والے اعلیٰ ذات کے 4ہندو نوجوانوں کے خلاف پولیس نے تمام تر گواہوں اور ثبوتوں کے باوجود مقدمہ درج کرنے اور انہیں گرفتار کرنے سے انکار کردیا۔ درندگی کا یہ وقوعہ 11ستمبر 2020کو پیش آیا تھا ۔ پولیس کی طرف سے برہمن زادوں کو بچانے کی کوششوں میں اتر پردیش کے انتہا پسند ہندو وزیراعلیٰ یوگی ادیتے ناتھ کا نام سامنے آیا تو احتجاج نے پورے بھارت کو اپنی لپیٹ میں لے لیا بھارت کے ہر شہر میں دلت اپنے حقوق کیلئے سڑکوں پر نکل آئے اور جلسے جلوسوں میں انکشاف کیا جانے لگا کہ دلت خواتین کیلئے بھارت میں جینے کی کوئی جاہ پناہ نہیں ہے 

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...