چیف جسٹس سپریم کورٹ مسٹر جسٹس گلزار احمد نے وزارت قانون میں مستقل سیکرٹری تعینات نہ کرنے کے معاملہ پر گزشتہ روز باور کرایا ہے کہ ایڈہاک ازم نہیں چلے گا، حکومت مستقل سیکرٹری قانون تعینات اور 120 نئی احتساب عدالتیں ایک ماہ کے اندر اندر قائم کرے ۔ فاضل چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے یہ استفسار بھی کیا کہ نیب رولز وضع کرنے کے معاملہ میں اب تک کیا پیش رفت ہوئی ہے۔
یہ افسوسناک صورتحال ہے کہ فوری انصاف کے لئے عدل گستری کے ساتھ بے پناہ توقعات تو وابستہ کی جاتی ہیں مگر عدلیہ کو اس کے لئے جن لوازمات کی ضرورت ہوتی ہے حکومتوں کی جانب سے انہیں درخوراعتناء ہی نہیں سمجھا جاتا۔ چنانچہ عدالتیں کم ہونے اور پہلے سے موجود عدالتوں میں بھی ججوں اور دوسرے عدالتی عملہ کی تعداد پوری نہ ہونے کے باعث عدلیہ پر مقدمات کا بوجھ بڑھتا رہتا ہے اور پھر اس پر دادے کے دائر کردہ کیس کے فیصلہ کی اس کے پوتے کی جانب سے کیس کی پیروی کے دوران بھی نوبت نہ آنے کی ضرب المثال صادق آتی ہے۔ اس وقت ماتحت اور اعلیٰ عدلیہ میں عملاً لاکھوں مقدمات زیر التواء ہیں ، جن میں فوری فیصلہ کے متقاضی سنگین مقدمات بشمول نیب کے مقدمات بھی شامل ہیں۔ فاضل چیف جسٹس نے اپنے منصب پر فائز ہونے کے بعد فوری انصاف کا عزم باندھا تو حکومت سے 120 نئی احتساب عدالتیں تشکیل دینے کا بھی تقاضہ کیا تاکہ احتساب کے عمل میں کسی قسم کی قانونی رکاوٹ پیدا نہ ہو۔ فاضل چیف جسٹس کے اس تقاضے کو بھی چھ ماہ کا عرصہ گزر گیا ہے مگر نئی احتساب عدالتوں کی تشکیل کے معاملہ میں حکومت کی سطح پر ابھی تک محض غور خوض کا سلسلہ جاری ہے جبکہ گزشتہ ہفتے وزیر اعظم عمران خاں نے حکومتی ٹائیگر فورس کے اجتماع میں خطاب کرتے ہوئے عدلیہ سے بالخصوص نیب کے مقدمات کے فوری فیصلہ کا تقاضہ کیا تھا۔ اگر حکومت نے نئی احتساب عدالتوں کی تشکیل کے لئے اب تک کوئی عملی پیش رفت ہی نہیں کی اور پہلے سے موجودہ عدالتوں کو بھی مطلوبہ سہولتیں فراہم نہیں کی گئیں تو عدلیہ سے سرعت کے ساتھ انصاف کی کیسے توقع رکھی جا سکتی ہے۔ حکومت کو عدلیہ سے متعلق مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنا چاہیے تاکہ انصاف کی فراہمی کے عمل میں کسی قسم کی رکاوٹ پیدا نہ ہو۔
٭…٭…٭