خالد یزدانی
ڈاکٹر طاہررضا بخاری ،حکومت پنجاب کے معتبر اور علمی اور انتظامی شخصیت ہیں ، جنہوں نے اپنی اوائل عمری میں سیرت طیبہ ؐ کے موضوع پر "مواہب العلام فی فضائل سیّدِ الانامؐکے عنوان سے ایک وقیع تحقیقی مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری کے حقدار قرار پائے ،اور جنوری 1999ء میں منعقدہ پنجاب یونیورسٹی کے سالانہ کانووکیشن میں "ڈاکٹریٹ"کی سندِ امتیاز حاصل کی ۔محکمہ اوقاف میں ڈائریکٹرجنرل کے طو رپر گراں قدر خدمات کے ساتھ ، اسلامی علوم ومعارف کے حوالے سے قائم عظیم مرکز"پنجاب انسٹیٹیوٹ آف قرآن &سیرت سٹڈیز"کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر بھی ہیں ۔ وفاقی حکومت سے انہیں اب تک چار"سیرت ایوارڈ"عطا ہوچکے ہیں ۔ماہِ ربیع الاوّل کی ان بابرکت ساعتوں میں ،ڈاکٹر صاحب سے خصوصی نشست کا اہتمام کیا گیا جوکہ قارئین کی نذر کی جارہی ہے ۔
سوال:۔ اُسوۂ رسول اور سیرت طیبہؐ کی تاریخی اور علمی اہمیت اور حیثیت کیا ہے؟
سیر ت طیبہ ؐ ایک ایسا چشمۂ فیض ہے جوہر دور کے انسانوں کے لیے مینارئہ نور کی حیثیت رکھتا ہے ۔اس چشمۂ کرم سے اربوں انسانوں کی تاریک زندگیوں کو ہدایت اور روشنی فراہم ہوئی ہے ۔محققین نے حیات طیبہؐ اور تعلیمات نبویہؐ پر انتہائی محبت، محنت اور اخلاص کے ساتھ کام کرکے تحقیق وجستجو کے نت نئے زاویے واکئے ہیں ۔ آپؐ کے اسوہ پر عمل پیرا ہو کر آج بھی انسانیت فکری ،نظریاتی ،علمی واخلاقی اعتبار سے اوج کمال تک پہنچ سکتی ہے اور ہمیں معاشرتی زندگی میں علم وآگہی ،امن وسکون اور رواداری وبُردباری جیسی نعمت میسر آسکتی ہے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ آپ ؐ کی تعلیمات اور اُسوئہ کو عام کیا جائے ۔طلوعِ اسلام کے بعد نبی اکرم کی سیرت ان اہم ترین اور سب سے قدیم موضوعات میں سے سرِ فہرست ہے جس نے اہلِ دل او رصاحبانِ قلم کے دامانِ خیال کو کھینچا ہے اور ہر ایک نے اپنے علمی ظرف، ذہنی رحجان اور فنی مذاق کے مطابق پہلے تو اپنا دامنِ طلب بھرا، اور پھر دوسرے مشتاقانِ پرتوجمالِ الٰہی و نبوی کے قلب کے سرور اور آنکھوں کے نور کا اپنے مقدور بھر بندوبست کیا۔ محدثین کرام نے اقوال، افعال اور تقاریر نبوی کی جزئیات تک کو فنِ حدیث کے زاویۂ نگاہ سے محیط کر لیا، تو مفسرین کرام نے کلامِ الٰہی کے تعلق سے تعبیرات نبوی کو محصور کر لیا۔ مغازی نگاروں کو فتوحاتِ اسلامی کے خیرہ کن پس منظر میں جنگ و جدال کی دنیا پسند آئی اور انہوں نے معرکہ ہائے نبوی کو سیرت کا ایک اہم ترین پہلو بنا دیا ۔ خالص سیرت نگاروں کو حیاتِ رسول کے ہر پہلو سے کام تھا ۔ اس لیے حیاتِ مقدسہ کا ہر لمحہ اور ہر جز قلم بند کیا ۔ نسب نگاروں نے عرب کے قبائلی نظام کے پس منظر میں جب اشراف کے انساب سے بحث کی تو حیات رسول ؐ کو سرنامہ بنا دیا کہ مفاخرِ عرب کے تاج میں نورِ محمدؐ شاہ ہیرا تھا۔ عالمی تاریخ نگاروں کی تصانیف میں سیّد الانبیاء کے ذکرِ مبارک کو کمال کا درجہ حاصل رہا۔ سیرت نبوی ؐ سے دلچسپی و تعلق خاطر مسلمانوں کو پہلے دن ہی سے رہا کیونکہ وہ کلامِ الہٰی کے بعد مذہب اور قانونِ اسلام کا دوسرا منبع حیات و سرچشمہ فیض ہے۔ خود عہدِ نبوی ؐ میںرسولِ اکرم ؐ کی مبارک زندگی کے ہر پہلو اور ہر گوشہ سے دلچسپی اور عقیدت و محبت کے ساتھ ساتھ جستجو، تفحص اور روایت کے ثبوت ملتے ہیں۔ عہدِ خلافتِ راشدہ میں اس موضوع میں دلچسپی اور روایت دونوں میں اضافہ ہوا ۔ آپؐ کی ظاہری زندگی سے ہٹ کر صحابہ کرام کے تصوّرات نے اپنے محبوب کر کردار کے ایک ایک نقش کو حرزِ جاں بنائے رکھا۔ وہ بیقرار دل اور مشتاق نظروں سے پوچھتے کہ اے محبتِ نبوی ؐکے شرف سے سرفراز ہونے والو ہمیں وہ باتیں سناؤ جو ہمارے محبوب کے ہونٹوں سے پھول بن کر جھڑتی تھیں۔ صحابہ کرام محبت وعقیدت کی زبان ، مگر صبر و ضبط کا دامن تھام کر حبیب مکرم ؐ کی باتیں کرتے۔صحابہ کرام کی زندگی کا محبوب مشغلہ اپنے آقا و مولا کی مجالس کے واقعات کو گھروں میں اور اپنی محافل اور مجالس کے اندر بیان کرنا تھا ۔ صحابہ کرام نے اس مبارک روایت کی جو بنیاد ڈالی اس کو دوسری نسل کے لوگوں نے ایک فن کا درجہ دیا اور روایت یا راویوں کا ایک طبقہ وجود میں آگیا۔ ان راویوں میں بعض لوگ غیر محتاط بھی تھے وہ جذبۂ محبت میں ہر روایت کو بیان کرتے گئے اور اس طرح بعض اوقات سیرت رسول ؐ ایک قصّہ نظر آنے لگتی۔ پھر ایک ایسا وقت بھی آیا کہ داستان گوئی یا داستان طرازی نے قدم بڑھائے اور بہت سی غیر تاریخی روایات سیرت کا حصہ بنتی گئیں۔ بایں ہمہ ایک طبقہ ایسا ہمیشہ کے لیے موجود رہا جو سیّدِ عالم ؐ کی حیات طیّبہ کو پوری احتیاط سے قلم بند کرتا رہا اور اس کی اسناد کو بھی ضبطِ تحریر میں لاتا رہا اور پھر واقعہ کے عینی شاہدوں کو نشاندہی کرتا رہا ۔ سیرت طیبہؐ کے حوالے سے اعلیٰ ترین سطح کے کسی ادارے کی تشکیل ابھی تک ممکن نہ ہوئی ہے ۔صوبائی سطح پر اس کمی کومحسوس کرتے ہوئے پنجاب حکومت نے "سیرت ریسرچ سنٹر"کے قیام کو اپنے ترجیحی منصوبوں میں شامل کرتے ہوئے اس کی فوری تشکیل کا حکم دیا ہے ۔ اس سنٹر کا قیام عامۃ الناس کے علاوہ صوبائی اورملکی سطح پر علمی اور دینی حلقوں کے لیے بھی افادیت کا باعث ہے ۔ نیز تعصبات کی بیخ کنی ،فرقہ واریت کے خاتمے ،عدم تشدد ،انسانی حقوق سے آگاہی اور اقلیتوں کے ساتھ حسن سلوک ایسے وسائل جس سے آج معاشرتی اور حکومتی سطح پر ، مختلف کنفیوژن پیدا ہورہے ہیں، کے خاتمے کے لیے ٹھوس بنیادیںفراہم کرے گا۔
سوال: ۔ اس ادارے کی تشکیل کا خیال کیسے آیا؟
ماضی قریب کی بات ہے ، مسئول علیہ ، سیالکوٹ کے پرائیویٹ سیکٹر میں قائم ’’سیرت سٹڈیز سنٹر‘‘کی زیارت سے لوٹا تھا ،بلا تأمل جواب دیا کہ لاہور میں’’سیرت ریسرچ سنٹر‘‘کا اعلان کرونگا۔ اگلے ہی چند لمحوں میں اعلان عمل میں آگیا۔ مسئول کو اگلے روز ڈی جی پی آر میں مذکورہ ادارے کے خدوخال وضع کرنے کے لیے طلب کر لیا گیا۔ ایک جامع اور مؤثر حکمت عملی اور قلیل المیعاد اور طویل المیعاد منصوبہ بندی کرتے ہوئے ایک جامع تجویز پنجاب حکومت کے روبرو پیش ہوگئی ۔ لاہور کے اپر مال پرواقع باون کنال قیمتی قطعہ اراضی اس مقصد کے لیے وقف کرکے ’’سٹیٹ آف دی آرٹ‘‘بلڈنگ کی تعمیر کے لیے کام شروع ہوگیا۔ 2007ء میں امام کعبہ لاہور میں تشریف فرما ہوئے تو انہوں نے اس کے نام کے لیے ’’قرآن وسنہ ‘‘ایسی ترکیب کو ادارے کے نام کے لیے زیر غور لانے کا مشورہ دیا۔ اس کی خوبصورت اور پُر شکوہ عمارت اپنے ارتقائی مراحل طے کرتی ہوئی پانچ سال قبل پایہ تکمیل کو پہنچی،بعد ازاں پنجاب اسمبلی سے ’’پنجاب انسٹیٹیوٹ آف قرآن اینڈ سیرت سٹڈیزایکٹ2014ـ‘‘کی منظوری عمل آئی ۔
سوال ۔ اس انسٹیٹیوٹ کا انتظامی ڈھانچہ کیا ہے؟
موجودہ حکومت نے قرآنی علوم ومعارف کی ترویج اور علومِ سیرت کی تحقیق اور تدریس کے لیے ـ"پنجاب انسٹیٹیوٹ آف قرآن اینڈ سیرت سٹڈیزـ" کے نام سے ایک گراں قدر ادارہ ترتیب دیا ہے ،جس کی عالی شان عمارت محکمہ مواصلات وتعمیرات کی وساطت سے پایۂ تکمیل کو پہنچ چکی ہے ۔ پنجاب اسمبلی نے بذریعہ نوٹیفکیشن 17دسمبر2014ئ’’پنجاب انسٹیٹیوٹ آف قرآن ، سیرت سٹڈیزایکٹ 2014ـ ‘‘کی منظوری دیتے ہوئے ادارہ کے دائرہ کار ،مقاصد و اہداف اوربورڈ آف ڈائریکٹرز کا تعین کردیا ہے ،جس کے مطابق وزیراعلیٰ پنجاب "بورڈ آف ڈائریکٹرز" کے چیئرمین ہیں ۔بلاشبہ وطن عزیز پاکستان کی موجودہ حکومت دین اسلام کی آفاقی قدروں پرپختہ ایمان رکھتی اور ایسے روادارانہ فلاحی معاشرے کی تشکیل کے لیے کوشاں ہے ،جو پرُ امن بقائے باہمی ،سماجی تحفظ معاشرتی بہبود اور ایثار واخوت جیسے عنوانات سے مزّین اور منور ہو، جس کے لیے علم وآگہی کی شمع کو فروزاں کیا جانا از حد ضروری ہے ،تاکہ فکری اور نظریاتی سطح پر انتہا پسندی اور دہشت گردی جیسے عناصر کی بیخ کنی ممکن ہو سکے ،بایں وجہ "پنجاب انسٹیٹیوٹ آف قرآن & سیرت سٹڈیزـ"جیسے اداروں کا رُوبہ عمل (Functional) ہونا وسیع تر قومی ، ملکی اورملّی مفاد میں از حد ضروری ہے ۔پنجاب انسٹیٹیوٹ قرآن &سیرت سٹڈیز ایکٹ 2014ء کی شق 4میں پنجاب انسٹیٹیوٹ آف قرآن اینڈ سیرت سٹڈیز کے Function کو بڑی صراحت کے ساتھ بیان کر دیاگیا ہے، جس کے مطابق اس انسٹیٹیوٹ میں ایسے علمی اور تحقیقی منصوبہ جات کا اجراء ہوگا جس سے عصر حاضر میں انسانیت کو درپیش مسائل کا قابلِ حل قرآن و سنت کی روشنی میں پیش کیا جاسکے۔ یہ انسٹیٹیوٹ قرآن میوزیم اور انتہائی خوبصورت اور جدید(State of the Art) اسلامی لائبریری سے آراستہ ہوگا۔ اسلامی افکار کی ترویج کے لیے تحقیقی مجلہ(Research journal) و ریسرچ رپورٹس وغیرہ کی اشاعت اور قرآن و سنت کے حوالے سے قومی اور بین الاقوامی کانفرنسز / سیمینارزاور تجوید وقرأت کے حوالے سے خصوصی تربیتی کورسز کا انعقاد بطور خاص قابلِ ذکر ہے۔پنجاب انسٹیٹیوٹ آف قرآن &سیرت سٹڈیز ایکٹ2014ء کی شق 5اور 6کے مطابق انسٹیٹیوٹ کی ایڈمنسٹریشن اور مینجمنٹ کے امور بورڈ آف ڈائریکٹرز کو تفویض شدہ ہیں، یہ بورڈ آف ڈائریکٹرز 17ممبران پر مشتمل ہے ، جس کا وزیراعلیٰ پنجاب /چیئرمین بورڈ آف ڈائریکٹرز کی منظوری سے ، مورخہ 8جنوری 2016کو نوٹیفیکیشن جاری کیا گیا ہے ۔ ممبران کی تفصیل حسبِ ذیل ہے:
جناب وزیر اعلیٰ پنجاب(چیئرپرسن)،جناب وزیر اوقاف ومذہبی امور پنجاب وائس چیئر پرسن (اوّل)، شریعہ سکالر وائس چیئرپرسن (دوم)، دو عدد ممبران صوبائی اسمبلی ، جبکہ سرکاری ممبران میں سیکرٹری حکومت پنجاب محکمہ اوقاف ومذہبی امور،سیکرٹری حکومت پنجاب محکمہ ہائر ایجوکیشن،سیکرٹری حکومت پنجاب محکمہ قانون و پارلیمانی امور،سیکرٹری حکومت پنجاب محکمہ خزانہ ،چیئرمین ہائرایجوکیشن پنجاب،وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی،چیئرمین پنجاب قرآن بورڈ، اسی طرح پرائیویٹ ممبران جن میں پریڈیڈنٹ اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ،جنرل سیکرٹری اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ،انسٹیٹیوٹ کے تدریسی عملہ کا ایک نمائندہ (برائے عرصہ دو سال) ،ایگزیکٹو ڈائریکٹر،انسٹیٹیوٹ کا ایگزیکٹو ڈائریکٹر بطور سیکرٹری بورڈ آف ڈائریکٹرز فرائض سرانجام دے گا۔
سوال:۔ پنجاب انسٹیٹیوٹ کا دائرہ کار کیا ہوگا؟
پنجاب انسٹیٹیوٹ آف قرآن &سیرت سٹڈیز "کی شق5کی ذیلی شق 2کی روشنی میں یہ ذمہ داری تفویض کی جاسکتی ہے۔محکمہ ہذا، اس امر کا خواہاں ہے کہ جناب وزیرا علیٰ پنجاب ماہ ربیع الاوّل کی بابرکت ساعتوں میں ، قرآن وسیرت سے موسوم اس عظیم ادارے کو عملی سطح پر فعال بناتے ہوتے، اس کے بورڈ آف ڈائریکٹر ز کے اوّلین اور افتتاحی اجلاس کی صدارت فرما کر ،ا س بابرکت اور عظیم علمی اور فکری سلسلے کا آغاز فرما دیں ، جس کے لیے وقت عطا کئے جانے کی استدعا ہے ۔بلا شبہ جناب وزیر اعلیٰ پنجاب اس وقت اہم صوبائی اور قومی امور کی انجام دہی میں مصروفِ عمل ہیں، جس کے سبب اگر وقت کی عطائیگی ممکن نہ ہو، تو عنوانِ بالا کے حوالے سے" امید واثق جناب وزیراعلیٰ پنجاب کی سربراہی اور سرکردگی میں یہ عظیم انسٹیٹیوٹ قرآن وسیرت کے حوالے سے ایم فل اورپی ایچ ڈی کی سطح تک کی تحقیق و تدریس کے ساتھ ، دینی مدارس کو قومی دھارے میںشامل کرنے اور محراب ومنبر کے لیے بہترین ، متوازن فکر اور جدید سوچ کے حامل علماء اور سکالرز تیار کرنے میں ممد ثابت ہوگا، جس سے موجودہ حکومت کے اتحاد بین المسلمین اور مکالمہ بین المذاہب کے حوالے سے تصوّرات کو عملی تعبیر میسر آسکے گی ۔
اس ادارے کی تخلیق کا بنیادی مقصد ایک ایسے عظیم الشان علمی اور تحقیقی مرکز کا قیام ہے، جہاں محققین اور ریسرچ سکالرز کو نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے اُسوہ اور قرآنی تعلیمات پر تحقیق وتفحص کے حوالے سے "سنٹرل آف ایکسیلینس"بین الاقوامی معیار کی جدید ترین سہولتیں میسر ہوں، جس میں ایک جدید اور شاندار لائبریری کے ساتھ ایک انتہائی وقیع اور جامع قرآن میوزیم کا قیام بطور خاص قابل ذکر ہے۔
اسوۂ رسول ؐ سے وابستگی کے بغیر عروج و ارتقاء ممکن نہیں
Oct 23, 2020