بات پردے کی پردے میں رہنے دو

 نااہلی کا فیصلہ آنے کے بعد کچھ گھنٹے تو بنی گالہ میں سکون کی فضا رہی۔ سکون کا ایک مطلب سناٹا بھی ہوا کرتا ہے۔ آپ جو چاہیں سمجھ لیں۔ پھر زناٹے سے یہ سکون یا سناٹا ٹوٹا اور پے درپے تین اجلاس ہوئے۔ ایجنڈا یک نکاتی تھا۔ یہ کہ ”ہُن کی کریئے۔“
تیسرے اجلاس میں بالآخر فیصلہ ہو گیا۔ یہ کہ لانگ مارچ کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ جب ہم پنجاب اور پختونخوا کی اسمبلیاں توڑ کر بھی اپنا مقصد حاصل کر سکتے ہیں۔ ہمارا مقصد نئے الیکشن کروانا ہے۔ لانگ مارچ میں جانے کتنے لوگ آئیں‘ کتنے نہ آ ئیں۔ ساٹھ ستر کروڑ کا خرچہ الگ اُٹھے گا۔ اسمبلیاں توڑیں گے تو نئے الیکشن کی راہ ہموار ہو جائے گی اور اسمبلیاں توڑنے پر خرچہ بھی کوئی نہیں آئے گا۔ ہینگ لگے گی نہ پھٹکڑی۔ چنانچہ اصولی فیصلہ یہ ہوا کہ اسمبلیاں توڑ دی جائیں اور کب توڑی جائیں‘ یہ فیصلہ کرنے کا اختیار عمران خان کو دیدیا جائے۔
بڑا اہم فیصلہ ہے‘ لیکن اچھی طرح یاد پڑتا ہے کہ دو اڑھائی ماہ پہلے بھی یہ اختیار عمران خان صاحب کو دیا گیا تھا۔ اب دوبارہ سے کیوں دیا گیا؟ کیا اس بیچ یہ اختیار کسی اور کو دیدیا گیا تھا؟ یا اختیار دینے کی تجدید ہوئی ہے۔ جیسے حکومت کسی آرڈیننس کی مدت ختم ہونے پر اس کی تجدید کیا کرتی ہے؟
بہرحال‘ زبردست فیصلہ ہے‘ لیکن اصل بات قدرے تشویشناک ہے۔ اسمبلیاں توڑنے کا اختیار دراصل چودھری پرویزالٰہی کے پاس ہے۔ اسمبلیوں سے مراد پنجاب اور کے پی کے دونوں کی اسمبلیاں ہیں اور دونوں اسمبلیاں توڑنے کا اختیار پرویزالٰہی ہی استعمال کر سکتے ہیں‘ کوئی اور نہیں۔ کیسے؟
عمران خان حکم دیکر دیکھ لیں‘ پتہ چل جائے گا اور پھر سامنے کی بات ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب اپنی اسمبلی نہیں توڑیں گے تو اکیلی کے پی کے اسمبلی ٹوٹنے کا فائدہ نہیں۔ چنانچہ وہ بھی نہیں ٹوٹے گی۔ کہیئے ‘ دونوں اسمبلیوں کو توڑنے کا اختیار پھر کس کے پاس ہوا۔
یہ گھنڈی آپڑی ہے‘ چنانچہ اسی لئے پردے کی بات کو پردے میں رکھنے کیلئے یہ اعلان کیا گیا کہ توڑنے کے وقت کا فیصلہ عمران خان کریں گے۔ جب پرویزالٰہی مانیں گے‘ تب کریں گے اور پرویزالٰہی کب مانیں گے۔ مطلب کہاں مانیں گے؟
................
پرویزالٰہی اس لئے نہیں مانیں گے کہ ابھی ان کی وزارت اعلیٰ کے دس مہینے‘ حکومتی اتحاد کے ٹائم ٹیبل کے مطابق باقی ہیں۔ وہ یہ دس ماہی اقتدار کیوں چھوڑیں جبکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ الیکشن کے بعد ان کی موجودہ دس رکنی پوزیشن برقرار رہنے کا کوئی امکان نہیں۔ جو بھی پارٹی الیکشن جیتے گی‘ اسے اکثریت ملے گی۔ وہ کسی دس رکنی تعاون کی محتاج نہیں ہوگی۔ چنانچہ بھلائی اور خیریت اسی میں ہے کہ پردے کی بات پردے میں رہنے دو۔ وقت کے تعین کا اختیار عمران خان کو دیکر پردہ تان دیا گیا ہے۔ اب جب اُٹھے گا‘ تبھی اُٹھے گا۔
................
ایک فیصلہ اور بھی ہوا جس کا اعلان خان صاحب نے اپنی ویڈیو میں کیا کہ کارکن ملک گیر احتجاج ختم کر دیں۔ جس وقت یہ اعلان ہوا‘ ملک میں کہیں بھی احتجاج نہیں ہورہا تھا۔ جو کچھ ”منی ایچر“ قسم کا معاملہ ہو رہا تھا‘ وہ پہلے ہی ختم ہو چکا تھا۔ بہرحال اس اعلان سے گھر بیٹھے انقلابیوں کو تسلی ہو گئی کہ ہم بے شک پیوند صوفہ و بستر ہیں‘ لیکن کچھ نہ کچھ ہمارے ساتھی ضرور اب بھی برسر ”سڑکات“ ہیں‘ جبھی تو خان صاحب نے ان سے چلے جانے کی اپیل کی ہے۔ اس کچھ نہ کچھ کی تفصیل انٹیلی جنس والوں کی رپورٹ میں درج ہے جو حکومت نے یا شاید کسی اور نے جاری کر دی۔ کسی شہر میں 25 تو کسی میں 50 افراد نکلے۔ نوٹ فرمایئے‘ 25 اور 50 لکھا ہے‘ 25 ہزار یا 50 ہزار نہیں۔ کہیں کہیں سو دو سو بھی نکلے اور بہت ہی کہیں کہیں دو سو تین سو بھی نکلے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق جتنے لوگ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی پر نکلے۔ اس کا دس فیصد اس بار نکلے۔
مطلب یہ کہ ”سکون“ صرف بنی گالہ ہی میں نہیں تھا‘ ملک بھر کی فضا میں بھی یہی سکون چھایا ہوا تھا۔ ایک شہر کی ویڈیو تو کمال کی تھی۔ مبلغ چار عدد کارکنان سڑک پر بیٹھے‘ بینر پکڑے‘ عظیم الشان احتجاج کر رہے تھے۔ ایسے میں بظاہر خان صاحب کی احتجاج ختم کرنے کی اپیل غیر ضروری تھی‘ لیکن دیکھا جائے تو‘ بھرم رکھنے کیلئے اشد ضروری تھی۔ یعنی انقلابیوں کو ایک بہانہ تو ملا یہ کہ ارے وہ تو ہم خان صاحب کی اپیل پر واپس آگئے ورنہ پتہ نہیں ہم نے کیا کر دینا تھا۔
................
خان صاحب نے بڑی عدالت میں عرضی ڈالی ہے کہ میری مزید آڈیو ویڈیو لیک کرنے پر پابندی لگائی جائے۔
ظاہر ہے‘ خان صاحب سے بڑھ کر کون جانتا ہے کہ ان کی یعنی خان صاحب کی کتنی اور کیسی ویڈیوز بے حجاب ہونے کی منتظر بلکہ اس کیلئے مضطرب ہیں۔ خیر‘ اسے چھوڑیئے‘ اصول کی بات کیجئے اور اصول یہی ہے کہ پردے کی بات پردے ہی میں رہنی چاہئے۔ ہم سب خان صاحب کی اس عرضی کی حمایت کرتے ہیں۔
................
خان صاحب نے اپنے ویڈیو پیغام میں اس بات کا بالکل درست شکوہ کیا کہ نااہلی کے باب میں میرا نوازشریف سے موازنہ کیا جا رہا ہے اور ہم دونوں کو برابر برابر دکھایا جا رہا ہے جوکہ غلط ہے۔
سخت زیادتی ہے کہ دونوں کو برابر دکھایا جائے جبکہ وہ ہرگز برابر نہیں ہیں اور موزانہ تو بنتا ہی نہیں ہے۔
نوازشریف کو اس لئے نااہل کیا گیا تھا کہ انہوں نے بیٹے کی فرم سے مقرر ہونے والی تنخواہ وصول نہیں کی تھی اور وصول نہیں کی تھی اس لئے گوشوارے میں لکھی بھی نہیں تھی۔ انہیں ”اعتزاز ڈاکٹرائن“ کے تحت سزا دی گئی۔
عمران خان صاحب کو توشہ خانہ سے 14 کروڑ کے تحائف گھر لے جانے اور جھوٹ بولنے کے جرم میں سزا دی گئی اور یہ سزا کسی ڈاکٹرائن کے تحت نہیں‘ آئین کے تحت اور ضابطہ ہائے فوجداری کی شقوں کے تحت دی گئی۔
حیرت کی بات ہے‘ کچھ لوگ پھر بھی برابر برابر کا فارمولا اپلائی کر رہے ہیں۔ خان صاحب کا شکوہ بالکل درست ہے۔ 
................
بھارت میں سنگ پریوار جہاد کے نام سے بہت مشتعل ہوتا ہے۔ کانگریس کے ایک اہم رہنما اور سابق وزیرداخلہ شیوراج پاٹل نے ایک بیان میں کہا ہے کہ برائی کے خلاف جہاد کا ذکر تو گیتا میں بھی موجود ہے۔ بی جے پی شیوراج کے اس بیان پر ناراض ہوئی ہے۔
گیتا یعنی بھگود گیتا‘ جو رامائن کا ایک باب ہے اور کرشن جی کے اس طویل مکالمے پر مشتمل ہے جو انہوں نے گورو ارجن جی سے کیا تھا۔ اس مکالمے میں اور بھی بہت کچھ ہے‘ لیکن سنگ پریوار نے شاید گیتا پڑھی ہی نہیں۔ ایک جگہ سری کرشن جی گورو سے فرماتے ہیں کہ پرماتما (خدا) ایک ہی ہے۔ اسے کسی نے پیدا نہیں کیا‘ سب کو اسی نے پیدا کیا اور وہی سارے سنسار کا مالک اور مختار ہے اور پوجا صرف اسی کی کی جا سکتی ہے‘ کسی اور کی نہیں۔
یہی باتیں مسلمان کرتے ہیں تو ان کو نیچ گردانا جاتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...