رات گیارہ بجے کا وقت تھا۔ آفس سے گھر کی طرف لوٹتے ہوئے، معروف شاہراہ پرایک بزرگ کو کچھ اشیا فروخت کرتے ہوئے دیکھا۔ وہ اگرچہ کم تعداد میں تھیں۔بزرگ سگنل سے کچھ پہلے کپڑا بچھاکر بیٹھے ہوئے تھے۔میں نے گاڑی سائیڈ پر روک لی اور ان کی طرف بڑھا۔رات کافی ہوچکی تھی، تھوڑا گھبرا بھی رہاتھا لیکن اللہ کانام لیااور ان کی طرف چل دیا۔ میں نے قریب جاکر ان کو کچھ رقم بطور امداد دینے کی کوشش کی۔انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ کرروکا اور کہا بیٹا میں مانگنے والا نہیں ہوں، نہ ہی میری اس طرح مدد کرو۔مانگنا تو صرف اللہ کی ذات سے چاہئے۔میں تو فقط مزدوری کررہا ہوں۔ میں اگرچہ بوڑھا ہوچکا ہوں۔عمر گزر رہی ہے اور کوئی اب مجھے مزدوری دیتا نہیں ہے، نظر بھی تھوڑی کمزور ہوچکی ہے۔ میں نوجوانوں کی طرح بہت زیادہ کام نہیں کرسکتا۔ مجھے اسی وجہ سے کوئی مزدوری پر نہیںرکھتا۔ میری کچھ ذمہ داریاں اور مجبوریاں ہیں۔ میں نے زندگی بھرمزدوری کی اور اللہ کا شکر ادا کیا۔ لیکن اب، وہ بات کرتے کرتے چپ کرگئے۔پھر بولے بیٹا تم بھلے مانس ہو۔ اگر میری مدد کرنا ہی ہے تو یہ چیزیں خریدو۔مجھے ان سے جو رقم ملے گی،میری ضرورت اس سے پوری ہوجائیگی۔ مجھے اسکی زیادہ خوشی ہوگی۔ آج فروخت کم ہوئی ہے اسی لئے اتنی رات گئے تک بیٹھا ہوا ہوں۔مجھے وہ لوگ اچھے نہیں لگتے جو سگنلز پر گداگری کرتے ہیں اور لوگوں سے اپنی ضرورت کیلئے ہاتھ پھیلاتے ہیں،ہاتھ پھیلا نا ہی ہے تو اس ذات کے آگے پھیلائوجس نے سب کو تخلیق کیا۔میںان کی بات سے اتنا متاثر ہوا کہ ضرورت نہ ہونے کے باوجود ان کی ساری چیزیں خرید لیں اور ان کو ضرورت کی رقم دے دی،رقم ہاتھ میں لے کر ان کی خوشی دیدنی تھی۔میرے دل کوبھی جیسے انہونی خوشی اور سکون ملا ہو۔سچ تو یہ ہے کہ ہمارے ملک میں اس جیسے بہت سے لوگ ہیں جوضرورت پڑنے پربھی مانگنے کی بجائے چھوٹی چھوٹی اشیافروخت کرتے ہیں ،ہم گداگروںکو عطیہ وخیرات تو دے دیتے ہیںلیکن ان جیسے لوگوں کی نجانے مدد کیوں نہیں کرتے۔یہ گداگر بھی انواع و اقسام کے ہیں۔ کچھ صحت مند و توانا، کچھ واقعی مریض اور زیادہ تر مصنوعی مریض، مریض اور معذور عام طور پر بیکار شمار کئے جاتے ہیں لیکن اس میدان میں وہ نہایت کار آمد اور مفید ہیں اسی لئے بہت سے صحت مند بھکاری نابینا اور معذور فقیروں کا تعاون حاصل کرتے ہیں اور ایک دوسرے کی مدد سے پتھر دلوں کو موم بنانے کا کام انجام دیتے ہیں ، ان میں بچے بھی ہیں ، جوان بھی اور بوڑھے بھی ، مرد بھی ہیں اور خواتین بھی، کم سن لڑکیاں، جوان لڑکیاں اور عمررسیدہ عورتیں بھی گداگری کے اس پیشہ میں ہر طرح کے لوگ موجود ہیں۔اسلام نے توکل کی تعلیم ضرور دی ؛ لیکن لوگوں نے جو بے عملی اور فرائض سے پہلو تہی کو توکل کا نام دے رکھا تھا، اس کی اصلاح بھی فرمائی، اسلام نے بتایا کہ توکل یہ نہیں ہے کہ اسباب دنیا کو ترک کر دیا جائے۔کسب معاش توکل کے منافی نہیں ، گداگری پیدا ہی اس لئے ہوتی ہے کہ انسان کسب ِمعاش کی تگ و دو سے دل چرانے لگے۔
ہر گداگر نے اپنی سوچ سمجھ کے مطابق گداگری کا کوئی نہ کوئی طریقہ اختیار کررکھا ہے، ایسا ہرگز نہیں کہ تمام بھیک مانگنے والے پیشہ ور بھکاری ہیں بعض و اوقات کسی خوددار فرد کے حالات بھی ایسے ہوجاتے ہیں کہ وہ دوسروں کے سامنے دست سوال دراز کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں مگر ایسے لوگ اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مترادف ہیں جبکہ پیشہ ور بھکاریوں کی ہرگاہ بھرمار ہے جن کے باعث آج ہمارے ہاں گداگری مجبوری یا معذوری نہیں رہ گئی بلکہ ایک منظم کاروبار بن چکی ہے۔
گداگری کی حوصلہ شکنی کی جائے ، مسجدوں اور درگاہوں کے ذمہ داران انھیں وہاں بیٹھنے اور بھیک مانگنے سے روکیں ، مذہبی اجتماعات، جمعہ وعیدین کے مواقع پر بھی انھیں بھیک مانگنے سے منع کیاجائے اور ان کی حوصلہ شکنی کی جائے ، ان کو بھیک نہیں دی جائے ، یہ بھیک مانگیں تو کام کرنے کی ترغیب دی جائے ، اس طرح ان کی حوصلہ شکنی ہوگی اور یہ باعزت طریقہ پر کمانے کے عادی ہونگے۔میری نظر جو لوگ کوئی سامان وغیرہ فروخت کررہے ہوں انکی اشیا خرید کر حوصلہ افزائی کریں ، یہ انکی مددکا مناسب طریقہ ہے اس طرح سے کسی کی دل شکنی، دل آزاری نہیںبلکہ حوصلہ افزائی ہوتی ہے لہٰذا ہم لوگوںکو اپنی سوچ کوبدلنے کی ضرورت ہے۔کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے
میری انا نے مجھ کو بکھرنے نہیں دیا