خوابوںکا ایک شہراور اس کا خوب صورت مکین

علامہ اقبال کی شہرہ آفاق تصنیف’’جاویدنامہ‘‘ میںمرغدین نامی ایک تصوراتی شہر کاذکر ملتاہے۔اس شہر کی زندگی ایک خواب گوں اور طلسمی فضامیںسانس لیتی ہے۔مرغدین پُرشکوہ عمارتوں کاشہرہے اور اسکے باشندے سنہری شباہتوں کے حامل ہیں۔یہ خوش شکل ، نرم طبیعت،سادہ لباس اور شیریں گفتارہیں، اس شہرکا علم وہنراللہ کی مخلوق کی خدمت میں پنہاں ہے،یہاں کے لوگ درہم ودینارکی اہمیت سے ناآشناہیں۔اس شہرمیں قلم فروشی ممنوع ہے اوریہاں کی گلیاں بھکاریوں کی آوازوں سے ناآشنا ہیں:
نے قلم در مرغدیں گیرد فروغ
از فنِ تحریر و تشہیر دروغ
نے ببا زارں ز بے کاراں خروش
نے صدا ہائے گدایاں درد گوش
اقبال کایہ تصوراتی شہر میرے خیال وخواب کی دنیا کوبخارا اورسمرقندسے تہذیبی اشتراک رکھنے والے شہرملتان کی طرف لے جاتا ہے۔ اس شہرمیں علم ودانش کے بہت سے مراکز تھے جہاںآفتاب اور ماہ تاب شخصیات جلوہ گرہوکرفکرواحساس کی دنیا کی آبیاری کیا کرتی تھیں۔انکی مجالس میں حیات وممات اور اس سے بھی ماورا علوم وفنون کا درس ملتاتھا۔شہراولیا ملتان کی یہ علمی وادبی خانقاہیںانسانی شعور کے ارتقاکی ضامن تھیں۔ ملتان کی ان عظیم شخصیات میں سے ایک پروفیسرحفیظ الرحمان خان میرے لیے ’’لائٹ ہائوس‘‘ بنے جوسمندری سفرمیں کنارے تک رسائی کا سبب بنتا ہے۔ان دنوںیہ تاریخی درس گاہ ایمرسن کالج ملتان (موجودہ ایمرسن یونیورسٹی ملتان) میں شعبہ اردو کے سربراہ تھے۔حفیظ صاحب کا آبائی وطن تونسہ شریف ہے،انکے والد گرامی حضرت مولانا خان محمدؒ دارالعلوم دیوبند سے سندیافتہ تھے،مولانا کے اساتذہ میں حضرت مولانا انورشاہ کاشمیری،مولانا حسین احمدمدنیؒ اورمولانا محمودالحسن ؒ نمایاں ہیں۔ اس علمی وادبی پس منظر کے ساتھ انھوں نے تدریس کے شعبے کو اختیار کیا،کراچی یونیورسٹی سے ایم اے اردو کیا،وہاں انکے اساتذہ میں ڈاکٹر ابوللیث صدیقی،حبیب اللہ غضنفراورڈاکٹر اسلم فرخی اہم نام ہیں۔ جنوبی پنجاب کے اہل علم میں اُنکی مثال سیارے زہرہ کی ہے جو اجرام فلکی میں سب سے زیادہ نمایاں اورروشن ہوتا ہے۔میں سالہا سال تک ان کی محفلوں میںشریک رہا ہوں ۔جن ہستیوں نے مجھے شعروسخن کے بعد تاریخ، سیاست، اخلاقیات، فلسفہ اورنقدونظر کی طرف راغب کیا،ان میں حفیظ صاحب کانام بھی شامل ہے ۔درس گاہوں میں تعلیم وتعلم کی روایت کودیکھیں تو میں کبھی بھی ان کا باقاعدہ شاگرد نہیں رہا لیکن ان سے تعلق کی نوعیت ہمیشہ مرشدومسترشد ہی کی تھی۔ان سے میں نے مختلف موضوعات پر علمی باتیں سنیں۔لیکچر دینے کا ہنر سیکھا۔ علاوہ ازیںیہ اکتساب کیا کہ مختلف علوم اور موضوعات کی تہ بینی کیسے کی جاتی ہے۔انھوں نے مجھے شاعری کے ساتھ ساتھ نثرکی طرف توجہ دینے کی تلقین بھی کی۔انکا سمجھانے کااندازہمیشہ اہل نظر جیسا رہا،دھیمے سے لہجے میں ’’کردم اشارتے ومکرر نمی کنم‘‘ والی صورتحال تھی۔میں نے پروفیسرحفیظ الرحمان خان سے میر، سودا، درد، غالب، اقبال کی شاعری پر باقاعدہ درس لیے۔ انھوں نے مجھے معاصرین کے شعری مجموعوں کے علاوہ کلاسیکی متون کو پڑھنے کا مشورہ بھی دیا۔اس مشورے پر میں نے حتی المقدور عمل کیا۔نئی نسل کی تربیت کیلئے انکی فاران اکادمی ایک انوکھی وضع کی ’’اخوان الصفا‘‘ کا درجہ رکھتی تھی۔ یہاں پروفیسر حفیظ الرحمٰن خان (ڈاکٹر اسلم انصاری اورڈاکٹر مختار ظفر جیسے بزرگوں کی معیت میں) سنجیدہ ادب کے فروغ پر مامورتھے،فاران اکادمی کے ادبی اجلاسوں میں ابتدائی طورپر خالدمسعودخان، مستحسن خیال، سید ذوالکفل بخاری، ڈاکٹر وحیدالرحمان خان ،ڈاکٹر جاوید اصغر،مختار پارس،تحسین غنی،عبدالودود شعیب، توحید الرحمان خان اور (بزعم خود)محمدافتخارشفیع جیسے شاعر اور ادیب منظرعام پرآئے۔ 
پروفیسرحفیظ الرحمٰن خان صاحب نے تسلسل سے ادب عالیہ کے خالص اور مثبت افکارکے فروغ کی کوشش کی۔جنوبی پنجاب میں قومی صحافت کا آغاز روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘نے کیا۔پروفیسرحفیظ الرحمان خان نے پچیس سال تک روزنامہ ’’نوائے وقت ‘‘ملتان میں زاویہ کے عنوان سے کالم لکھا ، پاکستان اور نظریہ ٔ پاکستان کی بات کی اور پاکستانیت کا مقدمہ بھی خوب لڑا۔ان کی تحریروں کا موضوع اسلام، اردو، پاکستان، علامہ اقبال اورقائداعظم ہوتے تھے۔ملتان میں ہمیشہ انکی آواز سب سے منفرد اورجداتھی۔کسی نے انکی آواز پر لبیک کہا توکسی نے نظرانداز کردیا،لیکن مجال ہے کہ انکی استقامت میں ذرا سافرق بھی آیاہو۔ہمارے حفیظ صاحب نے علم وادب کی دنیامیں نام کمایا۔ان کی متعدد کتابیں منظرعام پرآئیں۔حیرت کامقام ہے کہ پیرانہ سالی اور صحت کے مسائل کے باوجود ان کا خامہ آج بھی رواں ہے،وہ اپنے مقصد ِحیات سے ایک پل کیلئے بھی غافل نہیں ہوئے۔میرانیس کا ایک شعر ان پرصادق آتاہے:
لگا رہا ہوں مضامین ِنو کے پھر انبار
خبر کرو مرے خرمن کے خوشہ چینوں کو 
ہمارے ہاں حکومتی سطح پرزندگی کے مختلف شعبوںسے تعلق رکھنے والے لوگوں کوتمغہ امتیاز اور تمغہ حسن کارکردگی جیسے اعزازات سے نوازاجاتا ہے۔ان ایوارڈزسے نوازے جانے کا معیار کیاہے،یہ تومعلوم نہیںلیکن بعض اوقات ایسے لوگ بھی اسکے حق دار ٹھہرتے ہیں جن سے ان اعزازت کی حرمت پہ باقاعدہ حرف آتاہے۔ہمارے حکومتی ارباب کی توجہ پروفیسر حفیظ الرحمان خان جیسی شخصیات کی طرف کیوں نہیں جاتی ،جنھوں نے تمام عمر خاموشی کے ساتھ ہماری سماجی اقدار کی حفاظت کی ہے۔ اپنی علمی وادبی کاوشوں کے ذریعے ایک مثبت سماج کی تشکیل کی بھرپور کوششوں میں لگے رہے ہیں۔ان کا کمال یہ ہے کہ علم وادب کے نئے جزیرے دریافت کرنے کے ساتھ ساتھ انھوں نے عقلی بنیادوں پراپنی قابل عمل تجاویزبھی پیش کی ہیں۔ پروفیسرحفیظ الرحمان خان کاشماراصحاب یمین میں ہوتا ہے۔انھوں نے ہمیشہ ایک خاص مقصد کے تحت چنیدہ موضوعات پربحث کی ہے۔ ولائتیں نہیں لوٹیں، جو سچائی ملی اس کوایمان داری سے دوسروں تک پہنچادیا۔ کئی نسلوں کی تربیت کی ،ایسے لوگ اب ہمارے ہاں نایاب ہیں سوجہاں ملیں انکے حروف کی روشنی کو چوم کر آنکھوں سے لگالیناچاہیے۔

کون ستارے چھوسکتا ہے راہ میں سانس اکھڑ جاتی ہے
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن