عمران خان کو الیکشن کمیشن نے نا اہل قرار دے دیا ہے کچھ قانونی ماہر کہتے ہیں یہ نااہلی نہیں انھیں ڈی سیٹ کیا گیا ہے لیکن اگر اس پر متعلقہ عدالت سزا دیتی ہے تو پھر وہ نااہل ہوں گے۔ موجودہ صورتحال میں وہ آنے والے جنرل الیکشن میں حصہ لے سکیں گے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا انھیں پی ڈی ایم کی حکومت کی خواہش پر نااہل کیا گیا ہے یا ان سے کوئی بھول چوک ہوئی ہے۔ کئی نون لیگیے کہتے ہیں کہ یہ ایسی ہی نا اہلی ہے جیسے میاں نواز شریف کو پانامہ کیس میں بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر نااہل کیا گیا تھا ۔حقیقت یہ ہے کہ جس بنیاد پر عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں دھرا جا رہا ہے اس میں سب کچھ قانون کیمطابق ہوا ہے ۔عمران خان نے توشہ خانہ سے جو تحائف لیے اس کی قیمت ادا کی لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ اراکین اسمبلی ہر سال الیکشن کمیشن کو اپنے گوشوارے جمع کرواتے ہیں اور گوشوارے جمع نہ کروانے پر رکن اسمبلی کی رکنیت معطل کر دی جاتی ہے جب وہ گوشوارے جمع کروا دیتا ہے تو از خو د وہ رکنیت بحال ہو جاتی ہے۔ اس کیس میں عمران خان نے دانستہ یا نادانستہ طور پر الیکشن کمیشن کو جمع کروائے گئے گوشواروں میں ان تحائف کا ذکر تو کیا لیکن تاخیر سے کیا جس پر انکے خلاف ریفرنس دائر ہو گیا اور انھیں الیکشن کمیشن نے نا اہل قرار دے دیا۔ عمران خان کو اندازہ تھا کہ اسکے خلاف کچھ نہ کچھ ہونیوالا ہے ۔ اسی لیے وہ تسلسل کے ساتھ چیف الیکشن کمشنر پر تنقید کر رہے تھے ۔ عدالتی روایات کیمطابق اگر کوئی فریق کسی جج پر عدم اعتماد کر دے تو وہ کیس نہیں سنتا ۔از خود کیس سے دستبردار ہو جاتا ہے ۔چیف الیکشن کمشنر کو چاہیے تھا کہ وہ اس کیس کا فیصلہ خود کرنے کی بجائے چاروں ممبران سے کرواتے۔ خود کیس سے الگ ہو جاتے ۔ اب عدالت میں یہ موقف بھی اختیار کیا جائے گا کہ چیف الیکشن کمشنر جانبدار تھے انھوں نے اپنی ذاتی رنجش کے باعث عمران خان کو نا اہل قرار دیا ہے۔ دوسری جانب عمران خان کی نااہلی پر ساری پی ڈی ایم دھمالیں ڈال رہی ہے مریم نواز شریف کا توکہنا ہے صرف نااہلیت نہیں عمران خان کو گرفتار بھی ہونا چاہیے عمران خان کو گرفتار کروانا شریف خاندان اور خصوصی طور پر مریم نواز کی دیرینہ خواہش ہے جس کا وہ متعدد بار اظہار کر چکی ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کا فرمانا ہے کہ ہم نے عمران کو حکومت سے نکالا تھا اب سیاست سے بھی نکالیں گے رانا ثناء اللہ تو سب سے آگے ہیں وہ یہ کریڈٹ خود لینا چاہتے ہیں کہ یہ سارا کچھ میری وجہ سے ہوا ہے ۔ پیپلزپارٹی والے بھی پیچھے نہیں رہے پی ڈی ایم کو عمران خان کی نا اہلی اپنے کھاتے میں نہیں ڈالنی چاہیے بلکہ اسے الیکشن کمیشن کی ضابطے کی کارروائی تک محدود رہنے دینا چاہیے وزیر داخلہ کی جانب سے یہ کہنا کہ لوگ مٹھائیاں تقسیم کریں شکرانے کے نوافل ادا کریں اور الیکشن کمیشن کے ممبران کے ساتھ اظہار یکجہتی کریں یہ ساری چیزیں پی ڈی ایم کو پارٹی بناتی ہیں اور ظاہر کرتی ہیں کہ پی ڈی ایم حکومتی اثر ورسوخ کے ساتھ عمران خان کو قابو کر رہی ہے چونکہ حالیہ ضمنی انتخابات کے نتائج واضح کرتے ہیں کہ عمران خان عوامی عدالت میں اور سیاسی میدان میں پی ڈی ایم کے قابو میں آنے والا نہیں اس لیے اسے کسی اور طریقے سے قابو کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔عمران خان اس وقت شہرت کی بلندیوں پر ہے۔دیکھا گیا ہے کہ بغیر کسی کال کے عمران خان کی نا اہلی کے فیصلہ پر ملک بھر میں لوگ سڑکوں پر نکل آئے ۔ سڑکیں بلاک کر کے ٹریفک جام کر دیا لوگ الیکشن کمیشن کے باہر دھرنا دے کر بیٹھ گئے یہ موقع تھا کہ عمران خان اس موقع سے فائدہ اٹھاتے اور لانگ مارچ کا آغاز کر دیتے اب اللہ بہتر جانتا ہے کہ انکے قانونی مشیروں نے انھیں مشورہ دیا ہے کہ آپ کو ہائیکورٹ سے ریلیف مل جائے گا تھوڑا انتظار کریں یا کہیں سے یقین دہانی کروائی گئی ہے جس پر انھوں نے مظاہرین کو پر امن طور پر گھر جانے کی ہدایت کی ورنہ جیسا ماحول بن رہا تھا آج صورتحال مختلف ہوتی۔لیکن عمران خان نے احتجاج کی بجائے عدالت میں جانے کا آپشن اختیار کیا ۔لیکن یہ طے ہو چکا ہے کہ عمران کو کٹ ٹو سائز کرنا ہے۔ ایسے معلوم ہوتا ہے کہ پی ڈی ایم کی حکومت نے اپنی حکومتی مدت پوری کرنے کیلئے عمران خان کو ڈی ٹریک کیا ہے تاکہ عمران خان فوری الیکشن کے مطالبہ سے ہٹ کر اپنی اہلیت میں الجھ جائیں۔ وہ لانگ مارچ کرنے کی بجائے عدالتی معاملات میں مصروف ہو جائیں میرے نزدیک عمران خان کو چاہیے کہ وہ عوام کو کہے کہ انھوں نے مجھے نا اہل کیا ہے مجھے اقتدار کا کوئی لالچ نہیں یہ فوری الیکشن کروائیں میری جماعت الیکشن لڑے گی یقین کریں عمران خان دو تہائی اکثریت لے جانے گا اور پھر کسی کو بھی وزیراعظم بنا کر خود پارٹی رہبر کے طور پر پارٹی کے ذریعے حکومت چلائے۔ لیکن ایسے لگتا ہے عمران خان کسی کا انتظار کر رہے ہیں۔اب انھیں لانگ مارچ کے حوالے سے کوئی نہ کوئی فیصلہ کر لینا چاہیے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ واضح کر چکے کہ وہ اپنی مدت ملازمت پوری کرنے کے بعد یعنی 5 ہفتوں بعد گھر چلے جائینگے لیکن اگر ان 5ہفتوں میں یہ لڑ لڑ کر مر گئے تو کون ذمہ دار ہو گا کیونکہ نہ کوئی پیچھے ہٹنے کیلئے تیار ہے نہ ہی کوئی ایک دوسرے کیساتھ بات کرنا چاہتا ہے۔ کردار ادا کرنیوالوں کو چاہیے کہ ملک کو مزید تماشہ نہ بننے دیں اسکا حل نکالنے میں اپنا کردار ادا کر کے جائیں۔
نا اہلیت کا کھیل
Oct 23, 2022