مائوں کے جتن، سُسرال کے مزے 

دسمبر کے اواخر میں جاڑے کی جوانی زوروں پر تھی۔ رات کا تیسرا پہر تھا ۔بدن سے ذرا سی رضائی کیا سرکتی، پالے سے پسلیاں چٹخنے لگتیں۔جنت بی بی اپنے چھ ماہ کے نو مولود صوبے خان کو جذب کے ساتھ اپنی چھاتی سے لپٹائے سو رہی تھی کہ صوبے خان نے بستر پر پیشاب کر دیا۔جنت بی بی نے پاس رکھا ہوافالتو کھیس دوہرا کر کے صوبے خان کے نیچے ڈالا اور خود گیلے کھیس پر لیٹی رہی۔صوبے خان آج بڑا کل بڑا ، ماں کی توجہ کا مرکز اور خوشیوں کا محور بنتا چلا گیا۔اسکی خوشیاں ’’اُگانے‘‘ کیلئے جنت بی بی دن بھر نہ صرف خاوند کے ساتھ مل کر بھٹے پر اینٹیں تھاپنے کا کام کرتی بلکہ اپنے خاوند اور بیٹیوں کی دیکھ بھال میں بھی کوئی کسر اُٹھا نہ رکھتی۔اگر ہم اپنی ’’ مرحوم تہذیب‘‘ کے چلمن میںسے ذراجھانک کر دیکھیں تو شہر کیا دیہات کیا ، ہر گھر میں ایک جنت بی بی اپنے صوبے خان کی خوشیاں’’ اگانے ‘‘ کے لیے کوئی نہ کوئی چکی پیستی دکھائی دیتی ہے۔ اُسے سر درد بھی ہو جائے تو جنت بی بی کی جان پر بن آتی ہے۔ جب تک وہ کھانا نہ کھالے جنت بی بی کے حلق سے نوالہ اترنا محال ہے، جب تک وہ گھر نہ لوٹے جنت بی بی پر نیند حرام ہے۔ اُسکی طرف کوئی انگلی کرے یا اونچی آواز میں گفتگو کرے تو جنت بی بی شیرنی کی طرح ایسا کرنیوالے پر جھپٹ پڑے۔ صوبے خان خالی پیٹ سکول چلا جائے توجنت بی بی ناشتہ لے کر سکول پہنچ جائے۔وہ جنت بی بی سے جھگڑا کرے یااونچا بولے وہ پھر بھی صدقے واری جائے۔ 
 بچیاں بیچاری تو ’’نفرتوں میں گندھی‘‘ محبت میں پل جاتی ہیں،بیٹے پالنا بھی بھلا کوئی آسان کام ہے؟ جہاں جنت بی بی جیسی ماں محبتوں اور قربانیوں کے سلسلے تحریر کرتی دکھائی دیتی ہے،وہاںباپ بیٹے کی خاطراپنا سب ترکہ قربان کرنے کو تیاربیٹھاہے۔ وہ اپنے حصے کا نوالہ بیٹے کے منہ میں ڈالتا ہے۔ خود ننگے پائوں، آدھ ڈھکے جسم میں زندگی گزار دیتا ہے ،مگر اپنے بیٹے کو اپنی بساط سے بڑھ کر عمدہ سے عمدہ پہناوا مہیا کرتا ہے۔ کبھی ایک جگہ تو کبھی ایک سے زیادہ جگہوں پر مشقت کا تگار سَر پر رکھ کر اولاد کی خاطرانمول جوانی کو بوڑھاپے کے حوالے کر دیتا ہے۔بیٹے کی ذرا سی خوشی پر پھولے نہیں سماتا۔نہ کوئی بدلے کی توقع رکھتا ہے نہ خواہش۔ بس اپنے بیٹے کو دنیا کا خوبصورت ترین انسان سمجھتا ہے اور اُسکی عظمت کے ’’ آسمانی خواب‘‘ بُنتا رہتا ہے۔ مثل مشہور ہے کہ ایک بادشاہ نے اپنے غلام سے شہر کا خوبصورت ترین بچہ پیش کر نے کو کہا۔ غلام نے توجہ سے احکامات سنے اور مزے سے گھر جا کر لیٹ گیا۔ شام ہوئی تو اپنے بچے کا ہاتھ پکڑا اور بادشاہ کے سامنے پیش ہو گیا۔ بادشاہ بچے کو دیکھتے ہی آگ بگولا ہو گیاا ور کہنے لگاکہ اگر میں تمہیں شہر کا سب سے بد صورت بچہ پیش کرنے کو کہتاتو اس بچے کا میرے سامنے آنا بنتا تھا، کیوں کہ میں نے اتنا بد صورت بچہ اپنی ریاست میں نہیں دیکھا۔ غلام نے کہا عالی مرتبت! اس کو آپ نے اپنی نگاہ سے دیکھاہے۔ اگر آپ اسے میری نگاہ سے دیکھتے تو آپ کی ریاست تو کیا پوری کائنات میں اس سے خوب رُو بچہ آپ کو کہیں دکھائی نہ دیتا۔گویا ہر بچہ اپنے باپ کی آنکھوں کا تارا ہوتا ہے۔ کسی اور کا بچہ وقت کا یوسف ہی کیوں نہ ہو اسے اپنے بد صورت بچے سے نگوں دکھائی دیتا ہے۔ 
حالات کی ستم ظریفی دیکھیے۔ وہ بیٹا جس کی پرورش کے دوران خودکو انسان کے درجے سے نیچے رکھا ۔ زمانے سے لڑائی مول لی ۔وہ ایک دن والدین سے آکر کہتا ہے ،’’مجھے لڑکی پسند آگئی ہے، میں نے شادی کرنی ہے‘‘۔ والدین ایک دوسرے کی طرف دیکھتے ہیں۔ اُنہیں ’’پیشاب زدہ‘‘ کھیس پر سونے سے لے کر یونیورسٹی پہنچانے کیلئے سر پر رکھے تگار تک کا ایک ایک لمحہ آنِ واحد میں نظروں کے سامنے گھومتا دکھائی دیتا ہے۔ آہ نکلتی ہے۔ زبان سِل جاتی ہے۔ بیٹا اپنا فیصلہ سنا کر چلا جاتا ہے۔ چارو ناچار والدین بیٹے کی رضا میں اپنی رضا شامل کر لیتے ہیں۔ اُس کی شادی دھوم دھڑکے سے تمام شگنوں کے ساتھ کرتے ہیں۔ جوں جوں وقت گزرتا جاتا ہے ،بیٹے کاسسرال اس کیلئے ’’سسرال شریف ‘‘بنتا جاتا ہے ۔’’ساس پاک‘‘ چکنی چُپڑی باتوں سے نہ صرف داماد کو’’سحر آلود‘‘ کر لیتی ہے بلکہ ان والدین کے خلاف داماد کے کانوں میں زہر بھرتی رہتی ہے جن کی مشقتوں کاثمر اُس کی گود میں گرا ہوتا ہے۔صوبے خان کے بدلتے تیور دیکھ کر اس کی بیوی بھی ساس اور سُسر کو رویے کی سولی پر لٹکاناقرینِ ثواب سمجھتی ہے۔
 اگر لڑکی کے والدین کسی دن اپنے داماد کے ہاں تشریف لانے کا اعلان کرتے ہیں تو گھر میں صفائیاں ستھرائیاں ،چیزوں کی ترتیب اور کھانے کے ذائقوں پر توجہ دی جاتی ہے۔صوبے خان ماں باپ کو ڈھنگ کے کپڑے پہننے کا حکم صادر کرتاہے۔ گفتگو کیسے کرنی ہے ، اسکے آداب سکھاتا ہے۔ پوتے کی محبت میں لوس لوس کر جینے والی دادی ،غلطی سے میکے پر گئی بہو کے ہاںپوتے کو دیکھنے کی ضد کربیٹھے تو بیٹے کے سُسرال میں اُسے کسی فالتو سے کمرے میں بٹھا دیا جاتا ہے اور بہو نوکروں کیلئے مختص کیے گئے برتنوں میں کھانا ڈال کرشوہر سے کہتی ہے ،’’جائو اپنی ماں کو دے آئو‘‘۔
اکثرجنت بیبیوں کے صوبے اُن کے ساتھ یہی سلوک کرتے آئے ہیں۔مگر افسوس اس بات کا ہے کہ صوبے خان کی ساس داماد سے تو بہت خوش ہے، لیکن اپنے بیٹے کے بارے میں شکوے کرتے نہیں تھکتی کہ وہ سسرال کا ہو گیا ہے۔کاش! ہمارے صوبے خان سمجھ جائیں کہ جنت ساس کے قدموں تلے نہیں، ماں کے قدموں تلے ہے۔آج کے صوبے خان اگر ساس کو دی جانے والی عزت کا نصف ہی اپنی ماں کو عنایت کر دیں تو کسی جنت بی بی کی آنکھ شاید کبھی نم نہ ہو۔

ای پیپر دی نیشن