بلال زبیری کی یاد میں

بلال زبیری 7 ستمبر 1926ء کو ایک دینی گھرانے میں پیدا ہوئے، لیکن ان کے والدین کے درمیان وہ سلوک نہ رہا جو کسی بھی گھرانہ میں طمانیت کے لئے ضروری ہوتا ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ بزرگوں کے سمجھانے کے باوجود طلاق کے ذریعے مستقل جدائی ہوگئی اور بلال زبیری کی والدہ محترمہ نے نکاح ثانی کرلیا۔ بلال کی عمر اس وقت چھ سال اور انکی ہمشیرہ کی عمر تین سال تھی۔ دونوں بہن بھائی ممتا کی پرورش سے محروم ہوگئے اور والد نے بھی پرورش کی ذمہ داری سنبھالنے سے معذوری کا اظہار کردیا جس پر بلال کے نانا نے دونوں بہن بھائیوں کی پرورش کی ذمہ داری سنبھال لی۔ موصوف بینائی سے محروم تھے ماں کی ممتا اور والد کی شفقت کی نعمتوں سے محروم ہونے اور نانا کے انتقال کے بعد خالہ اور چچا نے پرورش کی۔ چچا زاد بھائیوں کے ساتھ سکول میں داخل کیا گیا۔ دونوں چچا زاد بھائیوں نے پرائمری پاس کرلی مگر بلال دوسری جماعت ہی سے بھاگ گیا۔ بمشکل دوبارہ سکول میں داخل کیا گیا مگر تیسری جماعت کا امتحان پاس کرنے کے بعد پھر سکول چھوڑ دیا۔ 1935ء میں درزی کے ہاں کام کرتا رہا۔ 1936ء میںحافظ اللہ دتہ بھٹی کے ہاں کام شروع کیا جہاں سے سلائی کا کام ہی نہ سیکھا، سیاست کا چسکہ بھی حاصل کیا کیونکہ وہ مجلس احرار اسلام کے رضا کار تھے اور دوکان سیاسی بحث مباحثوں کامرکز تھی۔ وہیں سے اخبار پڑھنے کا شوق ملا حالانکہ وہ اخبار کی پوری عبارت درست تلفظ کے ساتھ نہیں پڑھ سکتا تھا۔ یہ شوق سیاست و صحافت کی طرف لے گیا ایک بار ایک مسجد میں مجلس احرار، اتحاد ملت اور خاکساروں کا مشترکہ اجلاس تھا، بلال وہاں چلا گیا اور سارا دن اس ہنگامہ میں مشغول رہا۔ جلسہ میں شرکت اور جلسہ کے بعد جلوس کی ہنگامہ خیزی… دوسرے دن جب استاد کی دوکان پر پہنچا تو انہوںنے خوب پٹائی کی اور معصوم بلال کے دونوںہاتھ پھیلاکر ایک پر استری اور دوسرے پر اینٹ رکھ دی اور حکم دیا کہ بازو ہلنے نہ پائیں۔ چند منٹ یہ صبر آزما آزمائش برداشت کی بالآخر کمسن بازو لرز گئے اور یہ دونوں چیزیں نیچے گر پڑیں۔ حافظ صاحب نے اس قدر پیٹا کہ بلال خوف زدہ ہوکر دوکان سے بھاگ کھڑا ہوا اورگھر بھی نہ گیا کہ مبادا دوسرے دن پھر اسی دوکان پر بٹھادیں۔ دن بھر کا بھوکا رات کو چُپکے سے گھر میں داخل ہوا اور بھوکاہی سو گیا۔ صبح دوسرے افراد خانہ کے بیدار ہونے سے پہلے ہی گھر سے نکل کھڑا ہوا۔ تاہم آنے والی رات سے پہلے ہی تلاش کرکے گھر لایا گیا مگر بلال نے حافظ صاحب کے ہاں نہ جانے کی قسم کھالی تھی اس کے بعد کچھ عرصہ بیکار رہا مگر ہر وقت یہ فکر دامن گیر رہتی کہ اپنا اور بہن کا خرچ کس طرح پورا ہوگا۔ ان دنوں ایک نابینا حافظ محمد چراغ کٹڑہ بیر والاکی گلی میں تعویزوں کا کاروبار کرتے تھے، حافظ صاحب کو لاٹھی پکڑ کر لے جانے کے لئے ایک مددگار کی ضرورت تھی، بلال ان کے ہاں پہنچ گیا۔ چار روپے ماہانہ مشاہرہ مقرر ہوا اور ایک وقت کی روٹی۔ چھ ماہ کا عرصہ وہاں رہنے کے بعد پھر دماغ میں یہ بات آئی کہ یہ کوئی کام نہیں کوئی نہ کوئی ہنر سیکھنا چاہئیے۔ چنانچہ پھر سلائی کا کام سیکھنے کے لئے مسلم بازار کی ایک دوکان پر پہنچا اور کام شروع کردیا۔ ڈیڑھ برس اس دوکان پر گزارنے کے بعد ایک دن استاد کے حقہ کی چلم بلال کے ہاتھ سے گری اور اس سے ایک کپڑا داغدار ہوگیا۔ بس پھر کیا تھا بلال کی اتنی پٹائی ہوئی کہ گھبرا کر وہاں سے بھاگا، سیڑھیوں سے پائوں پھسلا اور قلابازیاں کھاتا ہوا سڑک پر آگرا۔ جسم لہو لہان ہوگیا، اس دن کے بعد ادھر کا رخ نہ کیا البتہ گھر پر سلائی کا معمولی کام کرلیتا تھا۔ کچھ عرصہ بعد اس کام سے پھر جی اکتا گیا، روزگار کی تلاش شروع ہوگئی۔ ایک ڈیڑھ ماہ گلیوں میں پھر کر سبزی فروخت کرتا رہا مگر نقصان ہونے پر یہ سلسلہ بند کردیا، ان دنوں حاجی محمد اسمٰعیل زردہ پلائو فروخت کیا کرتے تھے۔ بلال کا چھوٹا چچا زاد بھائی ان کے ہاں ملازم تھا، بلال کو بھی آٹھ روپے ماہانہ پر ان کے ہاں ملازمت مل گئی اور وہ جھوٹے برتن صاف کرتا رہا، حاجی صاحب کو سیاست اور سیاسی خبروں کا بہت شوق تھا۔ خود ان پڑھ تھے مگر دوسروں سے پڑھواتے، یہ خدمت اب بلال انجام دینے لگا۔ اس جبری اخبار بینی نے اس کے اندر مستقبل کے ایک فعال، فرض شناس اور ذمہ دار اخبار نویس کے بیج بوئے۔ رفتہ رفتہ ان کا صحافتی سیاسی شعور پختہ ہوتا گیا، رہی سہی کسر امیر شریعت مولانا سید عطا اللہ بخاری رحمتہ اللہ علیہ کی تقریروں نے پُوری کردی جنہیں سن کر برطانوی سامراج کے خلاف نفرت بلال کے رگ و پے میں سرایت کرگئی۔ 1942ء سے 1947ء تک وہ مجلس احرار اسلام کے پرچم تلے کام کرتا رہا لیکن قیام پاکستان کے بعد عملی سیاسی زندگی سے کنارہ کشی اختیار کرلی اور کسی سیاسی جماعت میں شمولیت کی بجائے اخبارات میں مضامین لکھنے اور خبریں بھجوانے کا سلسلہ شروع کیا۔ 1948ء میں کشمیر کے محاذ پر مجاہدین کو امدادی سامان بہم پہنچانے کی مہم میں حصہ لیا اور گولہ بار وداور بمباری کے سائے میں اس کار خیر کو انجام دیا۔
یہ ہے وہ سماجی اور سیاسی پس منظر… جس نے بلال زبیری کو جنم دیا۔ بلال نے ایک بار صحافت سے وابستگی اختیار کرلی تو مرتے دم تک اس تعلق کا برقرار رکھا۔ شاید ہی کوئی صحافی اس قدر مستقل مزاج واقع ہوا ہو جس قدر بلال زبیری۔ بلال صاحب کی صحافت کا ذکر کرتے ہوئے ایک لفظ ’’غریب‘‘ بار بار مجھے جھنجوڑتا ہے اور میں اسے حُسن اتفاق ہی قرار دوں گا کہ بلال جس نے ایک غریب گھرانے میں آنکھ کھولی تھی جو ساری عمر غربت کی چکی میں پستا رہا اپنی پُوری زندگی ’’غریب‘‘ کے لئے وقف کئے رکھی، جو غریب پیدا ہوا، غریب جیا اور غریب ہی مرا۔
 روزنامہ ’’غریب‘‘ کے بانی چوہدری ریاست علی آزاد نے جب لائل پور سے اخبار کا اجراء کرتے ہوئے اپنے اخبار کا نام ’’غریب‘‘ رکھا اس وقت کوئی ’’غریب‘‘ کا نام لینے کا بھی روادار نہیں تھا لیکن انہوں نے ایک ایسے نام کو اپنے اخبار کی پیشانی کی زینت بنایا جس کا محض نام لینا بھی سرمایہ داروں کو گوارہ نہ تھا۔ ’’غریب‘‘ کی غریبوں کیلئے اس جدوجہد میں ایک غریب صحافی کی یاد ہمیشہ زندہ رہے گی جس نے جھنگ کو اخباری نقشے پر متعارف کرایا۔ (جاری) 

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...