یہود سے خطاب : مدینہ منورہ میں یہود کی کثیر تعداد آباد تھی ایک روایت کیمطابق حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایک لشکر حجاز کی طرف روانہ فرمایا تھا، آپ کے وصال کے بعد یہ لوگ یہیں آباد ہوگئے تھے، دوسری روایت کے مطابق ایرانی بادشاہ بخت نصر نے شام کو فتح کیا، اوریروشلم پر قبضہ کرکے اسکی بھی اینٹ سے اینٹ بجادی ، یہودیوں کا قتل عام ہوا، اورلاکھوں یہودیوں کوقیدی بناکر بابل لے آیا یہی وجہ ہے کہ ایرانی ماحول اورمعاشرے پر یہودیوں کے تہذیبی اورمذہبی اثرات بھی مرتب ہوئے ، فلسطین میں یہودیو ں کی جمعیت کا شیرازہ بکھرا تو انکے کچھ قبائل حجاز کی طرف پناہ ڈھونڈ نے کیلئے نکلے، وہ جب اس خطے میں آئے تو انھوںنے اپنی کتابوں میں موجود ، وہ آثا ر ملاحظہ کیے جو نبی آخرالزماں ﷺکے حوالے سے بیان کئے گئے تھے ، لہٰذا انھوں نے نہایت ذوق وشوق سے اسی جگہ سکونت اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہاں کے باشندے بالعموم علوم سے ناآشنا اوربنی اسرائیل جیسی حکمت وصنعت کے حامل نہیں تھے لہٰذا وہ یہودیوں کے علم ، تجربے اورذہانت سے بہت مرعوب ہوئے ، یہودیوں کی مذہبی روایت بھی بہت پختہ تھیں چار ہزار سال تک ان میں وحی ونبوت کا سلسلہ جاری رہا تھا، اوربنی اسرائیل میں ہزاروں کی تعداد میں انبیاء مبعوث ہوئے تھے، لیکن علم وحکمت اورکتابوں سے آشنائی کے ساتھ ان میں دیگر عیوب بھی پیدا ہوچکے تھے یثرب کے ماحول اور معاشرے پرگرفت کیلئے انھوں نے اپنے علم اور ہتھکنڈے ، ذہانت اورمکروفریب کو پوری طرح استعمال کیا، اورجلدہی پوری سوسائٹی پر علمی و معاشی حوالے سے حاوی ہوگئے اوران کا رول بادشاہ گرکا ہوگیا ، مدینہ اورگردنواح کے قبائل بھی انکے سحر کا شکار تھے، حتیٰ کہ بعض افراد نے تو یہ شرط بھی لگا رکھی تھی کہ اگر یہود اسلام لے آئیں تو وہ بھی اسلام قبول کرلیں گے کیونکہ یہ اہل کتاب ہیں اورکسی دعوت کے مضمرات کو ان سے زیادہ بہتر انداز میں سمجھ سکتے ہیں ، اس لیے قرآن نے یہود کو خاص طور سے اسلام کی طرف بلایا، کہ اگر تو یہ قبول اسلام کی سعادت سے بہرہ ور ہوجائینگے ، تو دوسرے بہت سے افراد کیلئے قبول اسلام کی راہ خود بخود ہموار ہوجائیگی، اوراگر وہ قبول اسلام سے انکار کرینگے تو انکی ضد اورہٹ دھرمی کا پردہ چاک ہوجائیگا، اوردنیا کے سامنے انکا اصل چہرہ بے نقاب ہوجائیگا کہ یہ سب کچھ جاننے کے باوجود محض حسد، ضد اورہٹ دھرمی کی وجہ سے اسلام قبول نہیں کررہے، لہٰذا قرآن نے بڑی تفصیل سے یہود کی تاریخ کے اہم واقعات سے کلام کیا، ان واقعات کا ا ظہار قرآن اورپیغمبر اسلام ﷺ کی حقانیت کی دلیل بھی ہے اوران میں یہ حکمت بھی مضمر ہے کہ اہل اسلام ، یہودیوں کے عروج وزوال کی تاریخ پر غور کریں اور انھیں بھی اچھی طرح ادراک ہوجائے کہ وہ کون سی قباحتیں جو کسی قوم کو منتہائے کمال سے ذلت کی پستیوں کی طرف دھکیل سکتی ہیں۔