گزشتہ روز آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی (این ڈی یو) کا دورہ کیا جہاں انہوںنے 24ویں قومی سلامتی ورکشاپ کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے قومی سلامتی کو درپیش مختلف چیلنجز اور جوابی اقدامات پر اظہار خیال کیا۔ شرکاء کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ وہ 5 ہفتوں بعد ریٹائر ہو جائینگے اور ایکسٹینشن نہیں لیں گے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ فوج اب سیاست میں کردار ادا نہیں کریگی اور نئے آرمی چیف کا نام کچھ ہفتوں میں سامنے آجائیگا۔
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی جانب سے دوٹوک اعلان کے بعد کہ وہ پانچ ہفتوں بعد ریٹائر ہو جائیں گے اور ایکسٹینشن نہیں لیں گے‘ آرمی چیف کے تقرر کے معاملہ میں اب بحث و مباحثے کے دروازے بند ہو جانے چاہئیں۔آئین میں آرمی چیف کے تقرر کے قواعد و ضوابط متعین ہیں‘ جن کے تحت وزیراعظم نے لیفٹیننٹ جنرلز کی سینیارٹی لسٹ میں شامل پہلے سات ناموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوتا ہے۔ اس ضمن میں کوئی ابہام نہیں۔ آرمی چیف نے اپنے منصب پر مزید توسیع نہ لینے کا اعلان کرکے اور فوج کے کسی سیاسی کردار کی نفی کرکے درحقیقت ملک میں آئین و قانون کی حکمرانی کو تقویت پہنچائی ہے۔ ملک کو درپیش چیلنجوں کے تناظر میں سرحدوں پر ہمہ وقت چوکس رہنا اور دفاع وطن کے تقاضے نبھانا عساکر پاکستان کی بنیادی ذمہ داری ہے ۔ اسی فکرمندی کے تحت آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے نیشنل ڈیفنس یونیور سٹی میں قومی سلامتی کو درپیش مختلف چیلنجز اور جوابی اقدامات پر اظہار خیال کیا اور پاکستان کے قومی مفادات کی حفاظت اور فروغ کیلئے قومی ہم آہنگی پر زور دیا۔ اب سیاست دانوں کو بھی سول امور میں فوج کے کردار کی توقع رکھنے سے بہرصورت گزیر کرنا چاہیے۔ ماسوائے قدرتی آفات اور نقص امن کی انتہائی صورتحال سے نمٹنے کیلئے جس کی آئین سول قیادتوں کو اجازت دیتا ہے کہ وہ ان حالات سے نمٹنے کیلئے فوج کی مدد طلب کر سکتی ہیں۔ کوشش کرنی چاہیے کہ سول ادارے جن کا قیام قدرتی آفات سے نمٹنے اور امن و امان برقرار رکھنے کیلئے عمل میں آیا ہے ‘ وہ اپنے فرائض پوری تندہی سے ادا کریں تاکہ پاک فوج سول معاملات آزاد ہو کر ہمہ وقت دفاع وطن کے تقاضے نبھانے میں یکسو ہو سکے ۔