”ارض ِ محشر“

فلسطین ہی دنیا والو ارض محشر ہے اور د یکھو وہاں حشر کا میدان سجاہے۔ ا±ن لوگوں پر تو قیامت ہے گزر رہی ہے۔ ان کا کوئی پرسان حال نہیں دنیا میں مسلمانوں کی کثرت اور طاقت کے باوجود کافر مسلمان عوام کو گاجر مولی کی طرح کاٹ رہا ہے اور کوئی طاقت سامنے نہیں آ رہی۔ قیامت ہی تو ہے۔
ارض فلسطین یہ قیامت ٹوٹی پڑی ہے تم سب بھی اپنی اپنی قیامت کا انتظار کرو کہ یہ وقت سب پر آنا ہے۔ تم جتنے بھی با اختیار ہو جاو¿ اس پل کوئی کام نہیں آگا سوا اچھے اعمال کے اور وقتِ جہاد میدانِ کارگزار سے رخ پھیر کر دشمن کی بھاری قتل و غارت اور بربریت سے صرفِ نظر مسلمانوں کو قطعاً زیب نہیں دیتا نہ ہی اس سے کسی قسم کی بریت ہے۔
فلسطین میں 1914 میں یہودیوں کے پاس فلسطین کی صرف 06 .2 فی صد ز میں تھی دراصل سلطنتِ عثمانیہ کی شکست کے بعد برطانیہ نے جو پہلا کمشنر تعینات کیا تھا وہ یہودی تھا، اس نے پہلا کام یہ کیا کہ زراعت اور تعلیم کے شعبے یہودیوں کے سپرد کر دیے اور دنیا بھر سے یہودیوں کو بلا بلا کرفلسطین میں آباد کیا جانے لگا انہیں زمین کاشت کرنے کے لئے قرضے دیے گئے اور رہائش اختیار کرنے کے لیے الاو¿نسز ساتھ ہی ان کے لیے وظائف مقرر کرد ئیے گئے انہیں پیکج دیا گیا کہ جتنی فصل وہ تیار کریں گے اس کے ساتھ اتنا ہی انکام پائیں کے دوسری طرف عربوں پر بھاری ٹیکس عائد کردیے گئے اور جن کے بقایا جات تھے ان کی زمیںیں ضبط کرنا شروع کر دیں گئیں ضبط شدہ یہ زمینیں یہودیوں میں مفت تقسیم کی جانے لگیں کے یروشلم کے مضافات سے آٹھ ہزار کاشت کا روں کو پچاس ہزار ایکڑ زمین سے یے د خل کر دیا گیا اور بدلے میں انہیں صرف تین پاو¿نڈ دس شلنگ معاوضہ ادا کر دیا گیا یہودی جوق در جوق فلسطین میں آنے لگے انہیں ہر قسم کا اسلحہ رکھنے کی آزادی تھی، کمشنر کی طرف سے انہیں نہ صرف لائسنس دے گئے بلکہ اسلحہ بھی فراہم کیا گیا۔ 
مسلمانوں کے لیے قانون ذر ا مختلف تھا وہ اسلحہ نہیں رکھ سکتے تھے اب کسانوں کو اسلحہ رکھنے کے جرم میں سزائے موت تک دی گئی کسانوں سے انکے زرعی آلات برآمد کر کے کہا گیا کہ یہ خنجر ہیں ہیں کیونکہ خنجر سے مشابہہ ہیں۔
درانتی رکھنے کے جرم میں بھی زمینیں ضبط کی گئیں اور انہیں سزائیں سنائی گئیں۔ مسئلہ فلسطین کو 947 1میں اقوام متحدہ میں پیش کیا گیا تو صورت حال کچھ یوں تھی کہ تمام زمین کا صرف 6.05 فیصد رقبہ یہودیوں کے پاس تھا اقوامِ متحدہ نے یہودیوں کو آباد کاری کے لیے 55 فی صد حصہ د ے دیا آج یہ کہنا کہ فلسطینوں نے زمینیں بیچیں تو اسرائیل بنا کسی طرح بھی درست نہیں ہوگا۔ کسی نے بھی زمینیں نہیں بیچیں بلکہ ان سے چھینی گئیں۔ سلطنت عثمانیہ کی شکست کے بعد پوری دنیا سے یہودی بلا بلا کر وہاں بسائے گئے آج جنگ کے نام پر اسرائیل فلسطینوں کی نسل کشی کر رہا ہے۔اس کا اصل مقصد ہی یہ ہے کہ فلسطین پر سو فیصد قبضہ کر لیا جائے لوگوں کو ان کے اپنے ملک سے اپنے گھروں سے ڈرا دھمکا کر جبری بے دخل کیا گیا۔
 آج جنگ کے نام پر جو مظالم اسرائیل کر رہا ہے اس کا سب سے بڑا مقصد ہی یہ ہے کہ علاقے پر جبری قبضہ کر لیا جائے۔ لوگوں کو ان کے اپنے ملک سے اپنے گھروں سے ڈرا دھمکا کر جبری بے دخل کیا گیا کہ جنوب کی طرف ہجرت کر جاو¿ ورنہ تمہارے گھروں کو اڑا دیا جائے گا اور جب وہ نہتے اور کمزور عوام خالی ہاتھ افرا تفری میں گھروں سے باہر نکل کر جنوب کی طرف ہجرت کرنے لگے تو ان کے قا فلوں پر بم بر سا ئے گئے اور انہیں ہزاروں کی تعداد میں۔ شہید کر دیا گیا جن میںں زیادہ تر بچے اور خواتین شامل تھیں۔
 آج کی تاریخ تک چودہ لاکھ فلسطینی بے گھر ہو چکے ہیں اور ان کے پاس کھانے پینے کی اشیاءا ذخیرہ ختم ہو چکا ہے۔ پانی ان پر بند کر دیا گیا ہے۔ سرحدیں ان کی بند کر دی گئیں ہیں وہ غزہ سے باہر نہیں نکل سکتے اور غزہ اور ویسٹ بینک میں بلکہ پورے فلسطین میں اسر آئیل اور اممریکہ کی اجازت کے بغیر کوئی چڑیا داخل نہیں ہو سکتی۔ 15 دن کے محاصرے اور شدید بمباری کے بعد عالمی دنیا کے دباو¿ پر صرف بیس عدد اشیا ءخود نوش کو ٹرک اندر جانے دیئے گئے جو کہ لاکھوں فلسطینیوں کی ضرورت کا 0.02 فی صد بھی نہیں بننتا فلسطین کے نمائندے کے مطابق انہیں روزانہ کے 150 اشیائے ضروریہ کے ٹرک درکار ہیں ان کی محاصرہ شدہ اور زخمی آبادی کے لیے لیکن امریکہ اور اسرائیل صرف 20 ٹرک دے کر سرخرو ہو گئے ہیں اور انہوں نے حما س کی مزید مغویوں کی رہائی کے بدلے راشن اور دوائیوں کے ٹرکوں کی فراہمی کی پیشکش ٹھکراتے ہوئے مزید خوراک کے ٹرک دینے سے انکار کر دیا۔ یہ ایک کھلی دہشت گردی اور ظلم کی انتہا ہے اس پر مستزاد یہ کہ جب بھوکے بچے اور خواتین خور اک لینے کیلئے کیمپوں میں آئے تو ا±ن پر پھر سے۔ بمباری کی گئی۔ یہ کیسا ظلم ہے یہ کیسا بھیانک ظلم ہے جس کا کوئی پوچھنے والا نہیں جنگوں کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں مذہبی عبادت گاہیں اور ہسپتالوں کو استثنی حاصل ہوتا ہے بچوں اور خواتین کی خون ریزی کی ممانعت ہے لیکن اسرائیل نے تو ساری حدیں عبور کر لیں۔ اس کے ہسپتالوں کو خالی کروا لیا اور جو چند بحالت مجبوری خالی نہ ہو سکے ا±ن پر شدید بمباری کرکے سینکڑوں اور ہزاروں مظلوم فلسطینیوں کو شہید کر دیا گیا جس میں آج ایک اور مسجد کی شہادت کی اطلاع ہے امر یکہ ایک طرف تو امن کی بات کرتا ہے اور دوسری طرف اسرائیل کو جنگی بحری بیڑے اور اسلحہ فراہم کرتا ہےاور کہتا ہے کہ ہم اور اسرائیل کی بھر پور حمایت کرتے ہیں اور اسکی فتح تک اسکے ساتھ کھڑے ہیں۔ 
حیرت کی بات یہ ہے کہ اب تک ایران کے سوا کسی مسلم ملک نے اسرائیل پر سختی نہیں کی گئی صرف رسمی مذمتی بیانات ہی دیے گئے غنیمت ہے کہ سعودی عرب نے امریکی وزیر خارجہ کے دورے میں اس کے زور دینے کے باوجود حماس کی مذمت نہیں کی اور اسرائیل کی طرف سے ہونے والی بربریت اور جنگ بندی کا مطالبہ کردیا۔ لیکن بات مطالبوں سے بہت آگے نکل چکی ہے۔ دنیا میں امتِ مسلمہ کے نام پر حرف آرہا ہے۔ دنیا کہتی ہے کہ امت مسلمہ کا کوئی وجود نہیں۔ اس کڑے وقت میں او آئی سی کا اجلاس اوّل تو بے حد تاخیر سے بلایا گیا اس کے بعد کسی بھی حتمی نتیجہ کے بغیر ختم ہو گیا صرف جنگ بندی کیلئے کوشش کرنے پر غور ہو رہا ہے او آئی سی کے اجلاس میں ایران نے تجویز پیش کی کہ اسرائیل کا بائیکاٹ کیا جائے تمام مسلم ممالک اس کو ہر طرح کی ترسیل بھی بند کر دی جائے مگر اس پر کوئی کماحق±ہ حرکت ہوتی نظر نہیں آتی۔ (جاری) 

ای پیپر دی نیشن