ایک مہنگے تعلیمی ادارے کے مالک سے تعلیم فروشی کے کاروبار پر گفتگو ہو رہی تھی۔ اس نے ہنستے ہوئے گفتگو کا اختتام اس تجویز پر کیا۔’ آپ کے نزدیک تعلیم مہنگی ہے تو کیوں نہ اب جہالت کو ہی آزما کے دیکھ لیا جائے ‘۔ اب بھلا اسے کون بتائے اور سمجھائے کہ میاں !تعلیم کے مہنگی سستی ہونے کا معاملہ نہیں۔ تعلیم حاصل کرنا ہر شہری کا حق اور اسے مہیا کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ ایسے دکھائی دے رہا ہے جیسے ریاست اس باب میں اپنی تمام ذمہ داریوں سے بالکل بری الذمہ ہو رہی ہے۔ پنجاب سے گیارہ ہزار سرکاری اسکول پرائیویٹ کئے جا رہے ہیں۔ ادھر تمام اضلاع میں اساتذہ نے احتجاجاً بچوں کو چھٹی دے کر کلاسز کی تالہ بندی کر دی ہے۔ سرکاری پرائمری کلاسوں میں دس بیس روپے فیس تھی جو ایک اطلاع کے مطابق تین ہزار روپے کی جا رہی ہے۔ کون ادا کرے گا؟ سرکاری اسکولوں میں وہی بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں جن کے ماں باپ پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی مہنگی فیس نہیں دے سکتے۔ اب یہ بچے بھی اسکول جانے سے رہے۔ یونیسف کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق پاکستان خواندگی کی عالمی درجہ بندی میں اقوام متحدہ کے 193ممالک میں شرمناک حد180ویں نمبر پر کھڑا ہے۔
عالمی بینک نے ”پاکستان کے سو سال اور مستقبل کا خاکہ “کے عنوان سے جاری ایک رپورٹ میں حکومت کو انسانی زندگی میں سرمایہ کاری کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ انہوں نے پاکستان میں سٹنٹ (اپنی عمر سے کم وزن اور قد والے بچے ) بچوں کی تعداد 38%بتائی ہے۔ مہنگائی کی موجودہ لہر کے باعث اس تعداد میں مزید اضافہ ہو جائیگا۔ آج اس عارضہ کے شکار بچوں کی وجہ سے پاکستان کے مستقبل کی افرادی قوت کو کئی سالوں تک مسائل کا سامنا رہے گا۔ ایک سٹنٹ بچے کیلئے سیکھنا ، قابلیتوں کو قبول کرنا اور نشوونما پانا مشکل ہو جاتا ہے ، جہاں محدود ملازمتوں کے مواقع دستیاب ہوں۔ ایک زمانہ تک سرکاری اسکولوں میں بچوں کو امریکی امداد کے ذریعے آیا ہوادودھ کا ایک ایک گلاس پلایاجاتا تھا۔ جس ملک میں سیلاب زدگان کیلئے بھیجے گئے کمبل ، دوائیاں ، دودھ وغیرہ بازاروں میں بکتاہو، وہاں اب بچوں کے کلاس روم تک دودھ کی ترسیل ممکن ہی نہیں ہو سکتی۔ ہمارے تین کروڑ کے لگ بھگ بچے پہلے ہی اسکولوں سے باہر ہیں۔ نئی سرکاری پالیسی کے بعد ان بچوں کی تعداد میں کتنا اضافہ ہوگا؟ اس کا اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں۔ کیا نگران حکومت کو ایسے بنیادی فیصلے کرنے کا اختیار ہے ؟ اس کا فیصلہ تو عدالتیں ہی کریں گی۔ اساتذہ کی مقامی یونین کے عہدیدارمعترض تھے کہ ہائیکورٹ کے جج رجوع کرنے کے باوجود اس معاملے کی نزاکت کو نہیں سمجھ رہے اور لمبی لمبی تاریخیں ڈال رہے ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس پرائیویٹائز یشن کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟ جواب میں یہی کہا جاتا ہے کہ سرکاری اسکولوں کا سارا نظام بگڑا ہوا ہے۔ ٹیچر پڑھانے کی بجائے ہر ماہ صرف تنخواہ وصولنے اسکول آتے ہیں۔ بچے کلاسوں سے غیر حاضر رہتے ہیں۔ سرکاری اسکول کا بندوبست پرائیویٹ ہاتھوں میں دینے سے یہ نظام ٹھیک ہو جائیگا۔
احتساب عدالت کے قمر الزماں نے گجرات کرپشن اسکینڈل کیس میں رائے اعجاز، رائے ضمیر سمیت چار سابق ڈی پی اوز کو یکم نومبر کو طلب کر لیا ہے۔ استغاثہ کے مطابق گجرات کے یہ چاروں سابق ڈی پی اوز کرپشن ریفرنس میں ملزم ہیں۔ ان ملزمان پر پولیس ڈیپارٹمنٹ میں دو ارب چھیانوے کروڑ روپوں کی کرپشن کا الزام ہے۔ پھر محکمہ پولیس کی یہ کرپشن صرف ضلع گجرات سے ہی خاص نہیں۔ تو کیا پولیس کا محکمہ بھی ختم کر کے پرائیویٹ ہاتھوں میں نظم و نسق دے دیا جائے۔ کم و بیش تمام سرکاری اداروں کا ایسا ہی حال ہے۔ تکلیف دہ بات ہے کہ پنجاب بھر سے گیارہ ہزار تعلیمی اداروں کی بندش کی خبریں اخبارات میں غیر اہم جگہوں پر نظر آرہی ہیں۔ کسی سیاسی جماعت کو اس کی فکر نہیں۔
21اکتوبر کو میاں نواز شریف آ چکے ہیں۔ ان کا آنا جانا لگا رہتا ہے۔ یہی آنا جانا ہی ہماری سیاست کی کہانی ہے۔استاد قمر جلالوی نے اپنے محبوب کے آنے جانے کی کہانی یوں کہی ہے :
آتے ہیں ستانے کو جاتے ہیں ر±لانے کو
اس آنے کو کیا کہیئے اس جانے کو کیا کہیئے
کیا یہ نواز شریف اپنی مرضی سے جاتے ہیں ؟ کیا یہ اپنی مرضی سے آتے ہیں ؟ کوئی تو ہے جو نظام چلا رہا ہے اور وہی اس ملک کے اصلی حکمران ہیں۔ پاکستان کی سیاست اقتدار ، معیشت ، ثقافت پر اپنا تسلط قائم رکھنے والی ملکی اور غیر ملکی قوتیں پاکستان کو مستحکم جمہوری بنیادوں پر استوار نہیں دیکھنا چاہتیں۔ یقینی طور پر پاکستان کا استحکام ان کی مفاد پرستی اور مطلق العنانیت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اسی باعث اس آنے جانے کا اہتمام کیاجاتا ہے۔ نواز شریف کو اپنے ملک میں آمد پرگیارہ ہزار اسکولوں کی تالہ بندی مبارک ہو۔ ویسے بھی ان دنوں ہماری مقتدر قوتوں کو عوام کا شعور ، آگہی ، بیداری اور تعلیم کھٹک بہت رہی ہے۔
ان دنوں لندن گئے ہوئے شاعر لہور شعیب بن عزیز کا تازہ کلام :
ہمہ آواز ہے باغ ہستی
کہیں بلبل کہیں غنچہ چہکے
کیسی خاموش تھی بزم احباب
سب تیرے نام پہ کیسا چہکے
ہر حباب ایک کہانی ہے یہاں