فوجی زندگی اور حسِ مزاح

Oct 23, 2023

سکندر خان بلوچ

اکیڈمی میں نئے کیڈٹ جب تک’ڈرل سلیوٹنگ ٹیسٹ‘ پاس نہ کریں ان کی راتوں کی نیند حرام رہتی ہے کیونکہ اس وقت تک باہر جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔ جان کچے دھاگے سے لٹکی رہتی ہے۔ تمام کیڈٹس کی حتی الوسع کوشش ہوتی ہے کہ پہلی ہی کوشش میں یہ ٹیسٹ پاس کر لیا جائے۔ یہ غالباً 1950ءکا واقعہ ہے۔
 1948ءمیںجب اکیڈمی نئی نئی شروع ہوئی تو ابتداءکے لیے کمانڈنگ آفیسربرگیڈئیر اینگل نے ڈرل انسٹرکٹر ز گارڈبٹالین انگلینڈ سے منگوائے تھے۔ انھوں نے پھر پاکستانی انسٹرکٹر ز کو ٹرین کیا۔ وہ لوگ ساری ڈانٹ ڈپٹ اور کیڈٹس کی کمزوریاں /غلطیاں انگریزی میں لکھ کر آفیسر بالا کو پیش کر تے تھے۔ انگلش انسٹرکٹرز کے جانے کے بعد ہمارے انسٹرکٹرز کے لیے سب کچھ انگریزی میں کرنا بڑا مشکل تھا۔ تمام ڈرل انسٹرکٹرز کا انچارج ایک صوبیدار میجر ہوتا ہے جو ڈرل /پی ٹی وغیرہ سب کچھ دیکھتا اور کارگردگی چیک کرتا ہے۔ ایک دن ڈرل ہو رہی تھی اور فرسٹ ٹرم کورس سیلوٹنگ ٹیسٹ پاس کرنے کی پریکٹس کر رہا تھا۔ ڈرل انسٹرکٹر ڈرل کی پریکٹس کرا رہا تھا۔ صوبیدار میجر سامنے ذرا فاصلے پر کھڑا ہو کر ڈرل دیکھ رہا تھا۔ اچانک ایک کیڈٹ کو چھینک آگئی۔ ڈرل کے دوران چھینک کا آنا بہت بڑا جرم ہوتا ہے۔ وہاں تمام انسٹرکٹرزکو سٹاف کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ اس چھینک پرصوبیدار میجر صاحب کا ضبط جواب دے گیا۔ وہاں سے دھاڑے ’سٹاف! صاحب کا نام اور نمبر نوٹ کریں۔ جرم نچھنگ آن پریڈ‘۔ ساتھ ہی خیال آیا نچھنگ کو انگریزی میں کیا کہنا چاہیے تو سٹاف کی آسانی کے لیے مزید فقرہ بڑھا دیا، ’نچھنگ آن پریڈ انگریزی بعد میں بنالیں گے۔‘
فوجی مزاح کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ یہ بالکل بے ضرر ہوتا ہے۔ اس سے کسی کی تضحیک یا تحقیر مراد نہیں ہوتی لیکن موقع اور حالات کی مناسبت سے بڑا فٹ آ جاتا ہے۔ 1972ءمیں بطور ایجوکیشن آفیسر میں جنوبی وزیرستان پوسٹ ہوا۔ وہاں بلوچستان کے بارڈر کے پاس ہماری’ توئے خولہ‘ نام کی ایک پوسٹ تھی جہاں کافی سارے جوانوں کی ترقی تعلیمی کمی کی وجہ سے رکی ہوئی تھی، لہٰذا مجھے پہلا ہدف یہی ملا کہ ان جوانوں کے لیے خصوصی کلاسز کا بندوبست کر کے تعلیمی کمی کو پورا کیا جائے۔ میں اپنے ایک صو بیدار کے ساتھ وہاں گیا اور خصوصی کلاس شروع کرا دی۔ ایک ماہ بعد ر پورٹ آئی کہ کورس مکمل ہو گیا ہے، لہٰذا امتحان لیا جائے۔ 
میرے کمانڈنگ آفیسر نے وہاں انسپکشن پر جانا تھا وہ مجھے بھی ساتھ لے گئے۔ کمانڈنگ آفیسر نے امتحان دینے والے جوانوں سے پوچھا، ’تم لوگوں نے کیا پڑھا ہے؟‘ سب جوانوں نے اٹن شن ہو کر جواب دیا، ’سر، ہم نے بَوت(پشتون سپاہی بہت کو بَوت کہتے ہیں) پڑھا ہے۔‘’آخر کیا پڑھا ہے اور کیا سیکھا ہے؟ ‘سی او نے پھر پوچھا۔ ایک جوان نے سادگی سے جواب دیا، ’سر، ہم نے بَوت سیکھا ہے اب ہم ’ب‘کا نقطہ نیچے لگاتا ہے پہلے اوپر لگا تا تھا۔‘ سی او خود بھی پٹھان تھا۔ یہ جواب سن کر ہنس پڑا۔ کہا، ان کے لیے اتنا ہی کافی ہے انھیں پاس کر دو۔ تعلیمی ترقی کا اس سے بہتر معیاربھلا کیا ہوسکتا تھا۔
ایک دفعہ ایک خچر یونٹ کی چند خچریں دریائے جہلم کے پل سے گزر رہی تھیں کہ کسی وجہ سے ایک خچر دریا میں گر گئی۔ دریا میں طغیانی آئی ہوئی تھی، لہٰذا کوشش کے باوجود خچر کو بچایا نہ جاسکا۔ بعد میں یونٹ کا آڈٹ ہوا۔ آڈٹ والے تو ویسے ہی بال کی کھال اتارتے ہیں، لہٰذا انھوں نے اعتراض اٹھایا کہ ٹھیک ہے خچر تو ڈوب گئی لیکن اس کی کھال بیچ کر رقم خزانے میں کیوں نہیں جمع کرائی گئی؟ یہ اعتراض شاید انھوں نے یونٹ کو زچ کرنے کے لیے لگایا تھا کیونکہ جب خچر دریا میں ڈوب چکی تھی تو کھال کیسے اتارتے؟ بدقسمتی سے بغیر سوچے سمجھے افسران بالا نے اس اعتراض کا جواب مانگ لیا۔ کمانڈنگ آفیسر بھی تھوڑا مزاحیہ قسم کا آفیسر تھا، اس نے یہ جواب لکھا، ’ہمیں افسوس ہے کہ کھال نہ اتار سکے کیونکہ خچر بہت جلدی میں تھی اور بغیر پوچھے دریا میں کود گئی۔ میرے خیال میں اس پر حکم عدولی کا الزام بھی لگنا چاہیے۔‘ اعتراض ختم ہوگیا۔
پچھلی صدی کی پچاس کی دہائی میں امریکی فوجوں کی کوریا جنگ کے دوران امریکی فوج کے کمانڈر جنرل میکار تھر مختلف وجہ سے بہت مشہور ہوئے۔ جنرل میکار تھر کے والد بھی فوجی آفیسر تھے اور شاید جنرل کے عہدے تک پہنچے۔ یہ سینئر میکارتھر کے نام سے یاد کیے جاتے ہیں۔ امریکی سول وار کے بعد یہ صاحب بطور کرنل ایک بارڈر پر تعینات ہوئے جہاں سے بہت سمگلنگ ہوتی تھی۔ انھوں نے بہت سختی کی اور سمگلنگ رک گئی۔ 
ایک دن ایک بالکل نئی گاڑی میں ایک ادھیڑ عمر خاتون ان سے ملنے آئی۔ ان کے ساتھ ایک نہایت خوبصورت نوجوان لڑکی تھی۔ سینئر میکارتھر نے دونوں کو کافی پیش کی اور آنے کا مقصد دریافت کیا۔ یہ خاتون بغیر تمہید کے گویا ہوئی، ’کرنل، باہر نئی شیورلے گاڑی آپ کی منتظر ہے۔ یہ رہی اس کی چابی۔ ساحل سپین کے ٹاپ کلاس ہوٹل میں آپ کا دو ہفتے کے لیے کمرہ بُک ہے۔ یہ ر ہے دو ایئر ٹکٹ اور ہوٹل کا بکنگ کارڈ۔ یہ دستخط شدہ چیک ہے۔ اس پر جو رقم لکھنا چاہیں لکھ لیں اور یہ میری سیکرٹری اس عرصہ کے لیے آپ کی ہر قسم کی خدمت کے لیے آپ کے ساتھ رہے گی۔ اگر مزید کسی چیز کی ضرورت ہو تو اسے بتا دینا یہ فوری پوراکردے گی۔‘اس آفر پر میکار تھر بہت حیران ہوا۔ پوچھا، ’اس خوبصورت آفر کے بدلے مجھے کیا کرنا ہو گا؟‘خاتون نے جواب دیا، ’کچھ خاص نہیں۔ ایک ہفتے کے لیے فلاں بارڈر خالی چھوڑ دیں۔‘ میکارتھر نے دودن کی مہلت مانگی۔ 
خاتون کے جانے کے بعد اپنے کمانڈرکو یہ سگنل بھیجا: ’براہ مہربانی مجھے اس کمانڈ سے فوری ہٹا دیا جائے یا دو ہفتوں کی چھٹی دی جائے کیونکہ مسز ۔۔۔ نے میری مکمل قیمت پیشگی ادا کر دی ہے: 
(Mrs... has paid me my full price in advance. Please change me from Command immediately or grant me two weeks leave. Most urgent.)
مزاح زندگی ہے۔ اس کے بغیر زندگی جہنم بن جائے۔ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جنھیں اللہ تعالیٰ نے حس مزاح کی خوبی سے نوازا ہے، جو مزاح کا استعمال خود بھی جانتے ہیں اور اس سے لطف اندوز ہونا بھی۔ ایسے لوگ محفل کی جان ہوتے ہیں۔ ماحول میں تازگی کا موجب بنتے ہیں اور خدا کا شکر ہے کہ فوج بھی ایسے لوگوں سے خالی نہیں ورنہ فوج کی سخت خشک اور تکلیف دہ زندگی عذاب بن جائے اور ایسے ماحول میں زندہ رہنا ناممکن ہو جائے۔ ایسے اعصاب شکن ماحول میں زندگی کے خشک ماحول سے مزاح کے پھوٹنے والے چشمے فوجی زندگی کے صحرا کو سیراب کرنے کا کام کرتے ہیں۔ حالات اور ماحول کی سختی سے بھی لطف اندوز ہونے کی خوبی پیدا کرتے ہیں۔ شاید اسی لیے فوج نے سول سے زیادہ مزاح نگارپیداکیے ہیں۔
٭....٭....٭

مزیدخبریں