وادی کاغان میں مزید 5 ہزار درخت لگانے کا منصوبہ
اگر اب بھی یہ 5 ہزار نئے درخت لگانے ہیں تو پھر ذرا حساب لگا کر یہ تو بتائیں جو ہماری سابقہ حکومت ملین بلین ٹری (درخت) لگانے کے نام پر اربوں روپے خرچ کر چکی ہے کیا وہ درخت بکریاں کھا گئیں یا ہماری حرص زدہ پیٹوں اور تجوریوں میں چلے گئے۔ ان لاکھوں کروڑوں درختوں کے بعد تو کوئی جگہ ایسی نہیں بچتی جہاں درخت لگانے کی ضرورت محسوس ہو۔ یہ ہے ہماری سویلین یعنی جمہوری عوامی حکومتوں کا حال اب اگر مثال فوجیوں کی دیں تو برا لگتا ہے بہت سے ماتھوں پر شکنیں پڑ جاتی ہیں۔ ہم تو شہروں میں دیہات میں ہرے بھرے درخت کاٹتے ہوئے ذرا بھر پرواہ نہیں کرتے جبھی تو پورے ملک میں جنگلات کم ہو رہے ہیں۔ اس کے برعکس فوجیوں کی جہاں ڈیوٹی لگتی ہے کیمپ لگتے ہیں چھاﺅنی بنتی ہے وہ وہاں بھی جنگل میں منگل کا سماں بنا دیتے ہیں۔ کیونکہ وہاں حکم کی تعمیل ہوتی ہے۔ حکم ملنے کے بعد اسے ہوا میں اڑا دینا ان کا شیوہ نہیں ہوتا۔ خیبر پی کے میں ملین بلین ٹری کے منصوبے کا بڑا شہرہ تھا۔ مگر آج بھی وہاں وہ سماں نظر نہیں آ رہا جو اطمینان بخش کہلائے۔ اب خیبر پی کے میں سیاحتی لحاظ سے اہم مقامات پارس، کاغان ناران اور بٹہ کنڈی میں دریائے کنہار کے کنارے لگائے جائیں گے۔ چلو اچھا ہے اس طرح کم از کم ان کو پانی دینے کے نام فنڈز کے اجراءکی لوٹ مار تو نہیں ہو گی۔ کیا اچھا ہوتا ہم شہری بھی سڑکوں کے کنارے‘ خالی مقامات پر سکولوں میں کالجوں میں نہروں دریاﺅں کے کنارے ایک ایک درخت ہی لگائیں اور اس کی پرورش کریں تو پورا ملک سرسبز گل و گلزار بن سکتا ہے اور بے رحم موسمیاتی تبدیلیوں کے زد سے بھی محفوظ رہ سکتا ہے۔
٭٭٭٭٭
مینار پاکستان پر مسلم لیگ (نون) کا کامیاب پ±رجوش جلسہ
جلسہ بڑا تھا یا نہیں تھا۔ جوڑ برابر کا تھا یا نہیں تھا یہ بحث اب سوشل میڈیا سے لے کر تھڑوں دکانوں چائے خانوں اور ٹی وی چینلز پر نجانے کب تک چلے گی۔ مگر اب بات سامنے ضرور آئی ہے کہ تمام تر ناتوانی کے باوجود جو لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ اب مسلم لیگ (نون) پنجاب میں ایک قصہ پارینہ بن گئی ہے۔ ان کے اندازے درست نہیں نکلے۔ چاہے اب کوئی کہے کہ سارے پاکستان سے لوگ لائے گئے تھے مگر یہ بھی تو حقیقت ہے کہ ہر صوبے سے زیادہ سے زیادہ 5 ہزار افراد آئے ہوں گے۔ یوں 20 ہزار سے زیادہ باہر والے نہیں تھے ہاں پنجاب کی جلسہ گاہ میں بھرپور شرکت تھی۔ ویسے ہی جیسے پی ٹی آئی کے جلسوں میں خیبر پی کے والوں کی بھرپور شرکت ہوتی تھی اور پورا جلسہ انہی کے رنگ میں رنگا نظر آتا تھا۔ بہرحال مقابلہ اس وقت اگر جلسوں میں شرکت کا تھا تو اس میں پنجاب میں مسلم لیگ (نون) کامیاب نظر آئی ہے ورنہ کارکن پریشان تھے۔ اب جو نون لیگی کونے کھدروں میں چھپے بیٹھے تھے وہ بھی میدان میں نظر آنے لگیں گے۔ میاں نواز شریف نے گزشتہ رات سٹیج پر بیٹھے رہنماﺅں کی طرف اشارہ کر کے کہا تھا یہ وہ سب موجود ہیں جنہوں نے جیلیں کاٹیں اب ان لیڈروں کو شرمندگی ہو رہی ہو گی جو مشکل سالوں میں جماعت سے کٹ کر چھپے رہے اور آج رستم زماں بن کر سامنے آ رہے ہیں۔ مگر سیاست میں شرم کا کیا کام اگر گھوڑا گھاس سے محبت کرے گا تو کھائے گا کیا۔
تو جناب اب دیکھتے ہیں پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (نون) کے بعد کون سی جماعت مینار پاکستان کے سائے تلے اتنا بڑا جلسہ کر کے کہہ سکتی ہے کہ میں بھی تو ہوں۔ اب ذرا سوچیں ان جلسوں کے اخراجات اٹھانے والے بعد میں اپنا حصہ کس طرح وصول کرتے ہوں گے۔
٭٭٭٭٭
جہانگیر ترین کی طرف سے بلوچستان میں قتل ہونے والے مزدوروں کیلئے مالی امداد
یہ ہوتے ہیں کرنے والے کام جو خدا جانے کیوں ہمارے مخیر حضرات بہت کم کرتے ہیں شاید انہیں سیاست اور کاروبار سے فرصت نہیں جبھی تو ان کے مرنے کے بعد چند سال بعد ان کی قبروں پر الو بولتے ہیں اور سرشام چمگادڑیں منڈلاتی ہیں۔ ملک بھر کے قبرستانوں میں ایسے لاکھوں لوگوں کی قبریں نشان عبرت بنی پکار پکار کر
دیکھو مجھے جو دیدہ عبرت نگاہ ہو
کہہ رہی ہیں جبکہ وہ لوگ انسانوں کی خدمت کرتے ہیں۔ ان کے زخموں پر مرہم رکھتے ہیں ان کی قبریں دن ہو یا رات اللہ کی حمد و ثنا بیان کرنے والوں ذکر کرنے والوں کے دم قدم سے روشن رہتی ہیں۔ اقبال نے اسی لیے تو کہا تھا ”درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو“ گزشتہ دنوں بلوچستان کے ساحلی علاقے میں کام کرنے والے شجاع آباد پنجاب سے گئے پانچ مزدوروں کو بعض شقی القلب دہشت گردوں نے نہایت بے دردی سے رات کو قتل کر دیا تھا۔ یہ تو شکر ہے کہ پنجاب میں ابھی تک محبت و رواداری موجود ہے ورنہ اگر یہاں سے سخت احتجاج ہوتا تو معاملہ بگڑ سکتا ہے۔ جنوبی پنجاب سے غریب مزدوروں کی اکثریت بلوچستان میں کام کرتی ہے۔ ان غریبوں کو مار کر ان دہشت گردوں نے کونسا بڑا کام کیا۔ ایک مرتبہ پہلے ایسی ہی واردات پر جنوبی پنجاب نے سندھ اور خیبر پی کے سے بلوچستان والے راستہ بند کر کے بھرپور احتجاج بھی کیا تھا۔ اب علاقے کے ایک درد دل رکھنے والے سیاستدان جہانگیر ترین نے جو استحکام پاکستان پارٹی کے سربراہ بھی ہیں مرنے والے 5 بے گناہ افراد کے لواحقین کو اور ایک شدید زخمی کوپانچ لاکھ روپے فی کس نقد امداد دے کر اور ان کے گھر والوں کو ماہانہ 15 ہزار کا وظیفہ مقرر کر کے بہت سے لوگوں کے دل جیت لیے ہیں۔ کیا جنوبی پنجاب میں اور کوئی صاحب خیر نہیں ر ہتا اربوں کے مالک تو وہاں بہت ہیں، جن کی عیاشیوں کے چرچے اسلام آباد، لاہور اور کراچی کے پوش علاقوں تک عام ہیں۔ مگر خیر کی راہ پر چلنے کی یہ توفیق سوائے جہانگیر ترین کے کسی اور کو نہیں ملی۔ واقعی یہ بڑے نصیب کی بات ہوتی ہے۔
٭٭٭٭٭
بھارت میں کرپشن کو سرکاری سرپرستی حاصل ہے۔ تحقیقاتی رپورٹ
بھارت میں ایسی کون سی چیز ہے جو سرکاری سرپرستی میں نہیں ہوتی۔ ظلم و ستم، نفرت، ذات پات، مذہب دھرم کا کاروبار، زیادتی ، شراب ، بازار حسن سب کچھ وہاں سرکاری سرپرستی میں ہی تو چلتا ہے۔ جس دیش میں مذہب جیسی پرامن چیز کو بھی نفرت کی بنیاد بنا لیا گیا ہو۔ اپنے علاوہ دوسرے مذاہب دین دھرم سے تعلق رکھنے والوں کو قتل کیا جاتا ہو، جہاں انسان سے زیادہ گائے اور کتوں کو تحفظ دیا جاتا ہو وہاں اگر کرپشن بھی سرکاری سرپرستی میں ہوتی ہے تو کیا عجب ہے۔ کرپٹ ترین 180ممالک کی فہرست میں بھارت اس وقت 80 نمبر پر ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے وہاں کرپشن کتنی اچھی طرح پھول پھل رہی ہے۔ جب کرپشن کے خاردار زہریلے پودے کو حکومتی سرپرستی کا پانی مل رہا ہو تو تاریخ شاہد ہے کہ وہ تیزی سے پھلتا پھولتا ہے۔ شاید مہان بھارت بنانے والے اسے ہر برے کام میں غلط کام میں نمبر ون بنا کر واقعی بے ایمان بھارت کا درجہ دلوانے کے حق میں ہے اور پھر ڈھیٹ بن کر
”بدنام جو ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا“
کا راگ الاپیں گے۔ زندگی کے ہر میدان میں کرپشن کا تذکرہ کرتے ہوئے یاد آیا کہ خیر سے ہم بھی کسی سے کم نہیں مگر بھارت سے مقابلہ کرتے ہوئے ہمیں اس چوہے کی مثال یاد آتی ہے جو ایک روز نہانے تالاب پر گیا اور ہاتھی کو نہاتا دیکھ کر بولا یار تیری عمر کتنی ہے۔ ہاتھی بولا ایک سال۔ اس پر چوہا بولا ‘ یار عمر تو میری بھی ایک سال ہے مگر ذرا بیمار شیمار رہتا ہوں اس لیے اتناکمزور ہوں۔ شاید یہی فرق ہماری اور بھارت کی کرپشن میں ہے ، مگر ہم بھی اس مقابلے میں اس کے آگے پیچھے ہی سفر کرتے بلکہ چھلانگیں لگاتے نظر آتے ہیں۔ کبھی کرپشن میں ہماری ترقی اور نت نئی جہتوں اس کے منظم کاروبار پر اگر بات کی جائے یا لکھا جائے تو خیر سے ایک ضغیم کتاب تحریر ہو سکتی ہے۔ مگر فی الحال ہم صرف بھارت میں کرپشن کی ترقی پر ہی غور کریں تو بہتر ہے۔
پیر ‘ 7 ربیع الثانی 1445ھ ‘ 23 اکتوبر 2023ئ
Oct 23, 2023